پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ
18 مارچ 2024افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے خوست اور پکتیا کے صوبوں میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب متعدد حملے کیے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد کے اس بیان کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔
یہ مبینہ حملے صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آئے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 16 مارچ کو ہلاک ہونے والے سات پاکستانی فوجیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
آصف علی زرداری نے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان کی سرحد پر یا پاکستانی علاقے کے اندر حملہ کیا گیا، تو اسلام آباد جوابی حملہ کرنے سے ہچکچائے گا نہیں۔ واضح رہے کہ 16 مارچ کو پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں پاکستان آرمی پر ایک حملہ ہوا تھا، جس میں پاکستانی فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل، ایک کیپٹن اور پانچ سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری حافظ گل بہادر گروپ نے قبول کی تھی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ پاکستان اپنے مسائل اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے افغانستان پر الزام نہ لگائے۔ انہوں نے پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات کے سخت نتائج ہو سکتے ہیں، جو پاکستان کے قابو میں نہیں ہوں گے۔
کشیدگی کا یہ ماحول صرف زبانی بیانات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں بھی اس کے اثرات واضح طور پر موجود ہیں۔ ضلع کرم کے نگراں ڈسٹرکٹ پولیس افسر مظہر جہاں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاک افغان سرحدی علاقے میں آج افغانستان کی طرف سے گولہ باری ہوئی ہے، ''جس میں تین سکیورٹی فورسز کے اراکین زخمی ہوئے ہیں۔ یہ گولہ باری صبح سویرے ہی شروع ہو گئی تھی۔‘‘
پارہ چنار کے پولیس حکام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''چار شہریوں کو پارہ چنار کے ہسپتال لایا گیا ہے، جو پاک افغان سرحد پر فائرنگ سے زخمی ہوئے ہیں۔‘‘
جیش الفرسان اور حافظ گل بہادر
کئی حلقوں میں یہ بھی بحث ہو رہی ہے کہ پاکستانی فوج کو ہدف بنانے والے جیش الفرسان نامی گروپ کی کیا حقیقت ہے۔ پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندی پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ یہ گروپ بنیادی طور پہ حافظ گل بہادر گروپ کا ہی ایک حصہ ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حافظ گل بہادر گروپ بنیادی طور پر چھوٹے چھوٹے گروپ بنا کر ان کے نام سے ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ اس سے پہلے لشکر خراسان اور دوسرے گروپ بھی بنائے گئے۔ لیکن درحقیقت یہ شمالی وزیرستان کے طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان حملوں میں ملوث ہیں۔‘‘
احسان اللہ ٹیپو کے مطابق حافظ گل بہادر 2014 کے عسکری آپریشن سے پہلے شمالی وزیرستان میں بہت طاقتور کمانڈر سمجھے جاتے تھے، ''انہوں نے ٹی ٹی پی، القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو پناہ دی تھی۔ تاہم 2014 کے عسکری آپریشن کے بعد وہ افغانستان کے خوست صوبے میں منتقل ہو گئے تھے اور وہی صوبہ اب ان کا مرکز ہے۔‘‘
احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ حافظ گل بہادر کے گروپ کی موجودگی لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور جنوبی کے پی کے دوسرے علاقوں میں بھی ہے۔‘‘
جیش الفرسان کے قیام کا مقصد
احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ نے بہت سارے ذیلی چھوٹے چھوٹے گروپ بنائے ہوئے ہیں، ''یہ گروپ بعض اوقات صرف ایک حملہ کرنے کے لیے ہی اپنے آپ کو کوئی نام دے دیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی گروپ کوئی دوسرا حملہ کرتا ہے اور وہاں وہ دوسرا نام استعمال کر لیتا ہے۔ تاہم اصل مسئلہ ان گروپ کے مختلف نام نہیں ہیں بلکہ ان تمام گروپوں کے پیچھے حافظ گل بہادر کا ہاتھ ہے، جو انتہائی طاقتور طالبان کمانڈر ہیں اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔‘‘
حالات کشیدگی کی طرف
سابق سیکرٹری دفاع لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال سے یہ لگتا ہے کہ حالات کشیدگی کی طرف جائیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور افغان طالبان اگر ٹی ٹی پی والوں کے خلاف ایکشن نہیں لیں گے، تو پاکستان کو مجبورا ایکشن لینا پڑے گا، جس کی وجہ سے یقیناً دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھے گی۔‘‘
افغان طالبان کے تعاون کا خدشہ
نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ خدشہ اس بات کا ہے کہیں افغان طالبان عسکری طور پر ٹی ٹی پی کی حمایت نہ کرنا شروع کر دیں، ''اگر افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کو ہتھیار اور دوسری چیزیں فراہم کرنا شروع کر دیں تو یہ پاکستان کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہو جائے گا۔‘‘
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت موجودہ صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی کو قرار دیتی ہیں۔ طلعت اے وزارت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کہ پاکستان اور افغانستان تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یہ بنیادی طور پہ ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہے۔‘‘
کابل اور اسلام آباد میں انتہائی کشیدگی کے امکانات؟
تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان کبھی بھی تعلقات انتہائی کشیدگی کی طرف نہیں جائیں گے۔ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور افغان طالبان کے شروع سے اچھے مراسم رہے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے نہیں لگتا کہ ان دونوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی لڑائی ہو گی۔ اس طرح کی چھوٹی موٹی کشیدگی سے افغان طالبان کو فائدہ ہوتا ہے، جن کے بارے میں افغان عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہیں۔‘‘
سید عالم محسود کے مطابق افغان طالبان اس طرح کے سخت بیانات دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ آزاد اور خود مختار ہیں۔