پاکستان اور افغانستان کے ساتھ امریکی سہ فریقی مکالمت ملتوی
13 فروری 2011ان مذاکرات کے التواء کا پس منظر امریکہ اور پاکستان کے مابین ریمنڈ ڈیوس نامی اس امریکی شہری کی پاکستان میں گرفتاری کی وجہ سے پیدا ہونے والا سفارتی بحران ہے، جس کو اپنے خلاف پاکستان کے شہر لاہور میں دو افراد کے قتل سے متعلق الزامات کا سامنا ہے۔
واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق، جو اعلیٰ سطحی سہ فریقی مکالمت ملتوی کی گئی ہے، اس کے لیے فی الحال کسی نئی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس طرح کی امریکی، پاکستانی اور افغان بات چیت میں وزراء اور دیگر اعلیٰ نمائندے شرکت کرتے ہیں۔ ایسے ہر سہ فریقی مکالمتی دور میں یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ افغانستان میں جنگ کی صورت حال کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کس حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔
اس بات چیت کا التواء پاکستان اور امریکہ کے کچھاؤ کے شکار تعلقات میں ایک نئی شدت کا اشارہ دیتا ہے، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ لاہور میں دہرے قتل کے امریکی ملزم ریمنڈ ڈیوس کو اسی ہفتے ایک مقامی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تھا، جہاں جج نے اسے چودہ روز کے لیے دوبارہ پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت میں دو افراد کو اپنے دفاع کی کوشش کرتے ہوئے فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔ لیکن لاہور پولیس کے اعلیٰ ذرائع کے مطابق ڈیوس کا ’اپنے ذاتی دفاع میں فائرنگ‘ کا دعویٰ غلط ہے اور ایسے مبینہ شواہد بھی ملے ہیں کہ اس نے دو پاکستانی شہریوں کو بڑی سرد مہری سے اور دانستہ طور پر قتل کیا۔
واشنگٹن میں 23 فروری سے لے کر 24 فروری تک ہونے والے سہ فریقی مذاکرات کے ملتوی کیے جانے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی محکمہء خارجہ کے ترجمان پی جےکراؤلی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس بات چیت کے التواء کا فیصلہ پاکستان کی تازہ سیاسی صورت حال کی روشنی میں اور واشنگٹن میں پاکستانی اور افغان حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد کیا گیا۔
اس موقع پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ امریکہ مستقبل میں اولین مناسب موقع ملنے پر اس سہ فریقی ملاقات میں تعمیری تبادلہ خیال کا انتظار کر رہا ہے۔ ترجمان کے بقول، ’’امریکہ اپنے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ مذاکرات کے تسلسل کا تہیہ کیے ہوئے ہے، کیونکہ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پر واشنگٹن، اسلام آباد اور کابل میں ایک ہی طرح کی تشویش پائی جاتی ہے اور جن کے لیے ایک میز پر جمع ہونا ان تینوں ملکوں کے حق میں جاتا ہے۔‘‘
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان جو بحران دیکھنے میں آ رہا ہے، اس کے حل کے لیے امریکہ کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستانی حکام کو ڈیوس کو بلا تاخیر رہا کر دینا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے واشنگٹن کی طرف سے اسلام آباد پر مسلسل دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ڈیوس لاہور میں امریکی قونصل خانے کا ملازم ہے اور اسے سفارتی مامونیت بھی حاصل ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی امریکی سفارتی عملے کے ایک رکن کے طور پر باقاعدہ شناخت ابھی غیر مصدقہ ہے۔ پاکستان میں ڈیوس کے ہاتھوں دو شہریوں کی ہلاکت پر سماجی اور عوامی حلقوں میں کافی غصہ بھی پایا جاتا ہے اور یہ مطالبے بھی کیے جا رہے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس پر قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا جائے۔
ریمنڈ ڈیوس 27 جنوری کو متنازعہ حالات میں لاہور میں ایک موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کے مبینہ قتل کا مرتکب ہوا تھا اور ان دنوں وہ چودہ روزہ عدالتی ریمانڈ پر ہے۔ جمعہ کے روز لاہور میں چند سو مظاہرین کے ایک احتجاجی مظاہرے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ اس امریکی ملزم کو پھانسی کی سز املنی چاہیے۔
اسی دوران امریکی کانگریس کے ارکان یہ دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر پاکستانی حکومت نے ریمنڈ ڈیوس کو جلد از جلد رہا نہ کیا، تو پاکستان کو دی جانے والی سول اور فوجی امدادی رقوم کی فراہمی معطل کر دی جائے گی۔ مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق اسی تناظر میں گزشتہ ہفتہ میونخ میں ہونے والی ایک بین الاقوامی سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملنے سے انکار بھی کر دیا تھا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عاطف بلوچ