1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش: رسمی پیغامات سے آگے تو بڑھیے

28 مارچ 2021

کسی زمانے میں تینوں ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ پھر بلوغت کے ساتھ ساتھ ہر کسی کا اٹھنا بیٹھنا مختلف ہوا، تو عادتیں بھی بدل گئیں اور داخلی اختلافات بھی اور باہمی رنجشیں خون خرابے کا باعث بننے لگیں، عصمت جبیں کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3rIIF
تصویر: Privat

آج بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور اپنے سے آبادی کے حوالے سے کہیں چھوٹے مگر حریف ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ نہ صرف متعدد جنگیں لڑ چکا ہے بلکہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں بھی شامل ہے۔

بنگلہ دیش نے، جو انیس سو ستر کی دہائی کے اوائل تک مشرقی پاکستان تھا، ابھی حال ہی میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر اپنے قیام کی نصف صدی پوری ہونے کا جشن منایا۔ انیس سو اکہتر کی جنگ میں پاکستانی فوج کو سابقہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی شکست اور پھر اس کے ہتھیار پھینک دینے کو کم از کم پاکستان میں آج تک بھلایا نہیں گیا۔

دوسری طرف بنگلہ دیش میں، جہاں اسلام آباد کے مقابلے میں ڈھاکا میں اسی جنگ کو علیحدگی کی جنگ کے بجائے آزادی کی جنگ کا نام دیا جاتا ہے، یہ بات تاحال فراموش نہیں کی جا سکی کہ پانچ عشرے قبل موجودہ بنگلہ دیش میں کیا ہوا تھا اور اس سب سے کم عمر آزاد جنوبی ایشیائی ملک نے اپنی آزادی کیسے حاصل کی تھی۔

مثال چاہے پاکستان کی لی جائے، بھارت کی یا بنگلہ دیش کی، تینوں ممالک کے ماضی کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات اور محسوسات ہیں، اپنی اپنی یادیں ہیں اور اپنے اپنے زخموں کے نشانات ہیں، جنہیں دیکھ کر فوراﹰ یاد آ جاتا ہے کہ کب کسے کس کی وجہ سے کتنی تکلیف پہنچی تھی۔

مگر اس سب کی جڑیں ماضی میں ہیں۔ مستقبل کی جڑیں ماضی میں نہیں ہوتیں بلکہ حال سے پھوٹتی ہیں۔ صرف زخم کریدتے رہنے سے ماضی کی تلخیاں ختم نہیں ہوتیں۔ زخموں کو بھر جانے کا موقع دینے کے لیے انہیں ڈھانپ دینا، جہاں تک ممکن ہو نئی شاخوں سے نئی کونپلوں کو پھوٹنے کا موقع دینا زیادہ مثبت اور تعمیری ہوتا ہے۔

اس تعمیری رویے کی چند مثالیں حال ہی میں نظر بھی آئیں۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو اسلام آباد اور نئی دہلی کے مابین تعلقات میں تعطل اور موجودہ تلخیوں اور کشیدگی کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک خط میں عمران خان کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ یہ بہت اچھا قدم تھا۔

اسی طرح چھبیس مارچ کو بنگلہ دیش کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ پر پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ کو بھی مبارک باد کا پیغام بھیجا اور ان کے ملک کی خوشحالی اور ترقی کی دعائیں بھی کیں۔ یہ بھی بہت اچھا قدم تھا۔

لیکن اسلام آباد، نئی دہلی اور ڈھاکا کے باہمی روابط تاریخی حد تک پرانے ہونے کے باوجود آج بھی اتنے یچیدہ ہیں کہ ان میں پیدا ہونے والی ہر خراش اور دوطرفہ بے چینی کا سبب بننے والی ہر رگڑ کو ماضی کا حصہ بنا دینے کے لیے صرف ہر سال اہم موقعوں پر بھیجے جانے والے مبارک باد کے پیغامات ہی کافی نہیں ہوں گے۔ اس کے لیے رسمی اقدامات سے آگے بڑھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایسے قدم جو ہر آنے والے کل میں ہر گزرے ہوئے کل کی رنجشوں کو ختم کرتے جائیں۔

ترقی کسی ایک ملک یا قوم کی ہو یا کسی پورے خطے کی، اس کے لیے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دائیں بائیں اٹھائے جانے والے قدم منزل تک پہنچنے میں مدد نہیں دیتے۔ منزل تک کم سے کم وقت میں اور مختصر ترین مسافت کے نتیجے میں تبھی پہنچا جا سکتا ہے، جب قدموں کی سمت درست ہو اور آگے بڑھتے ہوئے نہ تو مڑ مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا جائے اور نہ ہی کوئی فریق انا پرستی کا مظاہرہ کرتے پوچھے، ''پہلے میں کیوں؟‘‘

اتنا سا ہی تو کام ہے۔ ایک دوسرے کے لیے مبارک باد کے رسمی پیغامات کا تبادلہ صرف چھبیس جنوری، تئیس مارچ، چھبیس مارچ، چودہ اگست یا پندرہ اگست ہی کو کیوں کیا جائے۔ اطراف کے مابین سرکاری، سیاسی، عوامی اور سماجی سطحوں پر رابطے سال بھر کیوں نا قائم رکھے جائیں؟

آخر ہر کوئی یہی تو چاہتا ہے کہ وہ سال بھر خوش رہے، خوشحالی مستقل رہے اور سکون کی نیند بھی سال کی ہر رات آئے۔ اگر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں تو ان کی حکومتیں کیوں نہیں؟ اور اگر اسلام آباد، نئی دہلی اور ڈھاکا میں ملکی حکومتیں بھی یہی چاہتی ہیں تو پھر وہ ایسا کرتی کیوں نہیں؟

بات شاید اپنی اپنی سوچ، قول اور فعل کے درمیان فاصلوں کو عبور کرنے کی ہے۔ یہ فاصلے ایک دوسرے کو بھیجے جانے والے سالانہ مبارک باد کے سرکاری پیغامات سے تو ختم نہیں کیے جا سکتے۔ ایسا بڑے رہنما بڑے قدم اٹھا کر کرتے ہیں۔

عمران خان کے نام مودی کا خط کتنا اہم ہے؟

بنگلہ دیش کو گولڈن جوبلی مبارک!