پاکستان: توہين رسالت کے ملزم کا پوليس اسٹيشن ميں قتل
17 مئی 2014مقامی پوليس کے مطابق احمدی کميونٹی سے تعلق رکھنے والے خليل احمد کو جمعہ 16 مئی کی رات پاکستان کے مغربی صوبہ پنجاب کے ضلع شيخوپورہ کے بوہی وال گاؤں کے پوليس اسٹيشن ميں قتل کيا گيا۔ ايک سینئر پولیس اہلکار احسان الٰہی کے مطابق ایک نوجوان، جو پولیس یونیفارم میں ملبوس تھا، خلیل احمد سے ملاقات کے بہانے تھانے پہنچا اور اُس نے حوالات ہی میں فائرنگ کر کے احمد کو ہلاک کر دیا۔ متعلقہ نوجوان پولیس کی حراست میں ہے۔ الٰہی نے بتايا خليل کے قتل کا ملزم ايک طالب علم ہے اور اُس کے بارے ميں تحقيقات جاری ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ پاکستان ميں 1974ء سے لاگو قانون کے تحت احمديوں کو غير مسلم قرار ديا جاتا ہے۔ احمدی کميونٹی کے ايک رکن سليم الدين نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ 60 برس سے زائد عمر کے خليل احد کو پوليس اسٹيشن ميں قتل کر ديے جانے کے بارے اُنہيں مطلع کر ديا گيا ہے۔
شيخوپورہ کے ايک مقامی پوليس اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ علاقے ميں قريب پانچ روز قبل احمدی فرقے کے ارکان کا مقامی مسلمان آبادی کے ساتھ تصادم ہوا تھا۔ تصادم کی وجہ ايک مقامی دکان کے باہر لگا ہوا ’احمدی مخالف‘ پوسٹر تھا۔ اِس پوليس اہلکار نے واقعے کی تفصيلات بيان کرتے ہوئے بتايا، ’’احمدی کميونٹی کے تين نوجوانوں نے پوسٹرز پر دکان دار سے احتجاج کيا۔ زبانی جھگڑا ديکھتے ہی ديکھتے تصادم کی شکل اختيار کر گيا اور احمدی کميونٹی اور مسلمان آبادی کے ديگر افراد بھی اِس کا حصہ بن گئے۔ بعد ازاں مذہبی رہنماؤں نے مقامی مساجد ميں اعلان کرنا شروع کر ديا کہ خليل احمد، جس نے اُن تين نوجوانوں کا ساتھ ديا، توہين رسالت کا مرتکب ہوا ہے۔‘‘
سینئر پولیس اہلکار احسان الٰہی کے بقول تينوں نوجوانوں اور خليل احمد کے خلاف توہين مذہب کی رپورٹ درج کی گئی تھی۔ تينوں لڑکوں کو حراست ميں ليے جانے کے بعد ضمانت پر رہا کر ديا گيا تھا جبکہ خليل احمد کی ضمانت کی درخواست ايک مقامی عدالت ميں تھی، جس پر کارروائی جاری تھی۔
حال ہی ميں امريکی حکومت کے ايک پینل نے واشنگٹن انتظاميہ پر زور دیا کہ پاکستان کو اُن ممالک میں شامل کیا جائے، جہاں آزادی مذہب کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ پینل کے مطابق پاکستان میں بالخصوص احمدیوں کو نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔