پاکستان جنوبی ایشیا میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک
5 مئی 2016
یہ انکشاف انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پالیسی سائنسز کی ایک رپورٹ میں کیا گیا۔ جس تقریب میں رپورٹ پیش کی جارہی تھی، وہاں وزیر مملکت برائے وفاقی تعلیم اینڈ پروفشینل ٹریننگ بلیغ الرحمان بھی موجود تھے۔
اس رپورٹ کی تیاری میں ریسرچر کے طور پر کام کرنے والے احمد علی نے ڈویچے ویلے کو بتایا،’’پاکستان تعلیم پرجی ڈی پی کا 2.14 خرچ کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ مسئلہ صرف بجٹ کا ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ جو پیسہ مختص کیا جاتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ترقیاتی اخراجات بہت اہم ہیں لیکن اس کے لئے خاطر خواہ پیسہ نہیں ہے۔‘‘
حکومتی دعووں کے باوجود پاکستان میں تعلیم کا شعبہء زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم الف اعلان کے مطابق ملک بھر میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ یہ پاکستان میں بچوں کی آبادی کا تقریباﹰ نصف حصہ ہے۔ باقی جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، اُن کو فراہم کی جانے والی تعلیم بھی کچھ زیادہ معیاری نہیں ہے۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اڑتالیس فیصد اسکولوں کی عمارتیں خطرناک اور خستہ حال ہیں، جن کو فرنیچر، ٹوائلٹس، چار دیواری، پینے کے صاف پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اٹھارہ فیصد اساتذہ عموماﹰ اسکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔
قائدِ اعظم یونیورسٹی کے مشتاق احمد گادی کے مطابق تعلیم کی یہ ابتر صورتحال اس لئے ہے کہ پاکستان ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہے،’’بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع اور قرضوں کی ادائیگی پر چلا جاتا ہے، تو پھر آپ تعلیم اور صحت پر کیسے زیادہ خرچ کر سکتے ہیں؟ دوسرا آپ کی ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ ابتدائی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں ہے اور ایچ ای سی عوام کے پیسوں سے نجی اداروں کو نواز رہی ہے۔ پنجاب حکومت ایک ایجوکیشن بورڈ کے ذریعے تعلیمی اداروں کی نجکاری کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں تقریباﹰ چالیس سال کے اندر کوئی نئی یونیورسٹی نہیں بنی جب کہ زراعت سے مالا مال اس خطے میں کوئی زرعی یونیورسٹی بھی نہیں ہیں۔‘‘
پنجاب کے بعد سندھ میں تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے لیکن صورتِ حال بہت زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ سندھ میں تعلیمی صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سندھ یونیورسٹی کے شعبہء فلسفے سے وابستہ محترمہ امر سندھو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے صوبے میں نو سے دس ہزار کے قریب گھوسٹ اسکولز ہیں۔ حکومت نے چار ہزار سے زائد ایسے اسکولوں کی موجودگی کا خود اعتراف کیا ہے۔ مشرف کے دور میں ناظموں کے ہاتھ میں نوکر شاہی کے بھی اختیارات آ گئے تھے، جس سے وڈیرے مزید طاقتور ہوگئے اور انہوں نے تعلیم کا خوب بیڑہ غرق کیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جاگیردار نہیں چاہتے کہ لوگوں کو تعلیم دی جائے۔‘‘
سابق وفاقی وزیرِ تعلیم زبیدہ جلال کا کہنا ہے اگر سیاسی طور پر آپ پختہ ارادہ کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تعلیم میں بہتری نہ ہو، ’’ہمارے دور میں تعلیم کا بجٹ 1.3سے بڑھا کر تقریباﹰ تین فیصد کر دیا گیا تھا لیکن مسئلہ صرف فنڈز کی کمی کا نہیں بلکہ اس کے موثر استعمال کا بھی ہے۔ بلوچستان کی موجودہ حکومت نے تعلیمی بجٹ کو ترجیح دی ہے لیکن صرف عمارتیں کھڑی کرنے سے تعلیم میں بہتری نہیں آئے گی بلکہ اساتذہ کی تربیت اور نصاب پر توجہ دینی ہوگی۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے جانچ پڑتال کے نظام کو بھی لانا ہوگا۔‘‘