پاکستان: درآمدہ اَشیائے خوراک میں ’حرام‘ اجزاء
24 فروری 2015وفاقی وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک اعلیٰ افسر میاں اعجاز نے قائمہ کمیٹی کے ارکان کے سامنے امریکا اور یورپی ممالک سے برآمد کی گئی کھانے پینے کی ایسی 19 اشیاء کی فہرست پیش کی، جن میں شامل اجزا ’حلال‘ نہیں تھے۔ ان اشیاء میں گوشت، ڈیری پراڈکٹس، سُوپ، چاکلیٹ، ٹافیاں اور پاستا شامل ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان اشیاء میں سے بعض میں سرخ اور سفید وائن، جیلاٹین اور جانوروں سے حاصل کیا گیا رنگ ای - اکیس شامل ہے۔ کمیٹی کے ارکان کو آگاہ کیا گیا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے پاکسان حلال اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے، جو اندرون ملک تیار کی جانے والی اور بیرونی ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیائے خورد و نوش کے حلال ہونے کو یقینی بنائے گی۔
قائمہ کمیٹی نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے حکام کو جمیعت علماء اسلام کی رکن شاہدہ اختر کی جانب سے جمع کرائے گئے اس نوٹس پر بریفنگ دینے کے لیے طلب کیا تھا، جس کے مطابق پاکستان میں کھانے ہینے کی ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت جاری ہے۔
کمیٹی کے ارکان کو حکام کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد خوراک کا معاملہ صوبائی حکومتوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ حکام کی جانب سے ملک میں ’حرام‘ اشیاء کی درآمد روکنے کی ذمہ داری سے دستبرداری کے بعد کمیٹی کے چیئرمین طارق بشیر چیمہ نے اس معاملے پر صوبائی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے اجلاس جمعرات کو دوبارہ طلب کر لیا۔
خیال رہے کہ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں حلال اور حرام اشیاء کے درمیان تمیز ہمیشہ ایک حساس موضوع رہی ہے۔ ملک میں گزشتہ چند سالوں کے دوران اسلامی بینکاری کا تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان بھی اس بات کا عکاس ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنے سرمائے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق محفوظ رکھنا اور منافع کمانا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف بینکوں نے اسلامک ایڈوائزری بورڈ بھی قائم کر رکھے ہیں۔ تاہم کھانے پینے کی اشیاء میں حلال حرام کے فرق کے لیے ابھی تک کوئی باقاعدہ ادارہ قائم نہیں کیا جا سکا۔
قائمہ کمیٹی بر ائے سائنس اور ٹیکنا لوجی کے چیئر مین طارق بشیر چیمہ کا کہنا ہے کہ ’مختلف مارکیٹوں میں سینکٹروں حرام اشیاء فر وخت ہو رہی ہیں، ہم سڑسٹھ برسوں میں حلال اور حرام کی تمیز نہیں کر سکے۔ حرام اشیاء بیچنے والی جن دکا نوں کی نشاندہی ہو چکی ہے، ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے‘۔
وفاقی وزرات تجارت کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بیرون ملک سے درآمد شدہ کھانے پینے کی اکثر اشیاء پر اجزاء کی تفصیلات میں مختلف نمبروں کے کوڈز استعمال کیے جاتے ہیں، جن سے فوراً کسی چیز کے حلال اور حرام کا فرق معلوم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس افسر کے مطابق پاکستان نے اس بارے میں مختلف اسلامی ممالک خصوصاً ملائیشیا کے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے حلال فوڈ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اتھارٹی کے قیام کے بعد ملک میں فروخت کی جانے والی ڈبہ بند اشیاء کے لیے حلال سرٹیفیکیشن لازمی قرار دی جائے گی۔