پاکستان: زراعت کی تباہی، ریئل اسٹیٹ کی چاندی
3 مئی 2023واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ڈی ایچ اے ملتان اور ڈی ایچ اے گوجرانوالہ کے حوالے سے کچھ صارفین نے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی آموں کے باغات اور زرعی زمینوں پر رہائشی منصوبے تیار کر رہی ہے۔
پاکستان میں اس طرح کے الزامات بحریہ ٹاؤن اور دوسری ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ جنگلات کا عالمی معیار کل رقبے کا تقریباﹰ 25 سے 30 فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان میں یہ حصہ محض 5.4 فیصد ہے۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی امور کے ماہر عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات عشروں میں لاہور کے اندر کئی رہائشی اسکیمیں جزوی یا مکمل طور پر زرعی زمینوں پر بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ڈی ایچ اے، پیراگون ہاؤسنگ، پنجاب یونیورسٹی ہاؤسنگ کالونی اور رائیونڈ روڈ کے اطراف کئی ایسی رہائشی اسکیمیں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زرعی زمین پر تعمیر کی گئیں۔ شیخوپورہ میں شرقپور روڈ پر 20 کے قریب ہاؤسنگ سوسائٹیز صرف چند کلو میٹر کے فاصلے پر قائم ہیں اور لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان اب اسمارٹ سٹی کے حوالے سے بھی یہی دعویٰ کیا جارہا کہ وہ زرعی زمینوں پر ہیں۔‘‘
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے اکاؤنٹ منجمد
ڈی ایچ اے فراڈ کیس، سابق آرمی چیف کے بھائی کے خلاف تحقیقات
فیصل آباد کو پاکستان کی صعنت کا مرکز کہا جاتا ہے لیکن گزشتہ کچھ دہائیوں میں اس صنعتی شہر کے اطراف زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بنائی جارہی ہیں۔ عرفان چوہدری کا دعویٰ ہے کہ فیصل آباد میں ستیانہ روڈ کے دونوں اطراف زرعی زمینیں ہوا کرتی تھیں مگر اب وہاں پر ان کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔
پاکپتن سے تعلق رکھنے والے زرعی امور کے ماہر عامر حیات بھنڈرا کا کہنا ہے زرعی زمین پر رہائشی اسکیمیں بنانے کا منصوبہ صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بہاولنگر اور سرگودھا سمیت کئی شہروں میں تیزی سے چھوٹی چھوٹی رہائشی اسکیمیں زرعی زمین پر تعمیر کی جارہی ہیں۔‘‘
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیمیں بننے کا سلسلہ پنجاب میں زیادہ ہے لیکن یہ رجحان ملک کے دوسرے صوبوں میں بھی بڑھ رہا ہے۔
سندھ آبادکار بورڈ کے سینئر نائب صدر محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ بہت سارے چھوٹے زمیندار اپنی زمین تعمیراتی شعبوں کے لوگوں کو دے رہے ہیں: ’’ٹنڈو اللہ یار، سکھر، جام شورو اور کراچی کے کئی زرعی علاقوں میں اب ہاؤسنگ اسکیمیں بن رہی ہیں۔ قانونی طور پر زرعی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنا آسان نہیں ہے لیکن پاکستان میں قوانین صرف بنائے جاتے ہیں، ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔‘‘
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں شہر تیزی سے آباد ہو رہے ہیں اور ان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق سن 2000ء میں دنیا میں شہری آبادی 2.6 ارب تھی، جو اب پانچ ارب سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
پاکستان میں کراچی، لاہور، ملتان، پشاور اور فیصل آباد سمیت کئی شہروں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً شہروں کے اطراف جو زرعی زمینیں تھیں وہ اب ریئل اسٹیٹ کی ڈویلپمنٹ کے لیے کام آ رہی ہیں۔
روای ڈویلپمنٹ پراجیکٹ پر شدید تحفظات
لاہور میں حالیہ مہینوں میں راوی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ تنازعے کا شکار رہا، جو ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر مشتمل ہے۔ پراجیکٹ پر کئی ملکی اور بین الاقوامی تنظیمیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی اعتبار سے یہ پراجیکٹ بڑے پیمانے پر تباہی لائے گا جبکہ زرعی ماہرین بھی اس پراجیکٹ کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ ماہ ہیومن رائٹس واچ نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے ایک بیان بھی جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا کہ اس پراجیکٹ سے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بہت بڑے پیمانے پر آئی ہے۔ عامر حیات بھنڈرا کا خیال ہے کہ حکومتوں کی طرف سے بار بار کی ایمنسٹی اسکیموں نے ریئل اسٹیٹ کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے: ’’جو پاکستانی مزدور دوسرے ممالک میں کام کرنے کے لیے جاتے ہیں، وہ سب سے پہلے کوشش کرتے ہیں کہ ریئل اسٹیٹ میں پیسہ لگایا جائے۔ اس کے علاوہ کالا دھن بھی اس میں لگائے جاتا ہے جو ایمنسٹی اسکیم کی وجہ سے ملک میں آتا ہے۔‘‘
محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ زراعت میں بڑھتی ہوئی لاگت زمین داروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی زمینیں بیچیں۔ عرفان چودھری کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک رجحان ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر فوڈ ان سکیورٹی بڑھے گی: ’’یوکرین کے بحران نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر ممالک خوراک کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتے ہیں تو ان کے لیے کسی بحران کی صورت میں بہت ساری مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔‘‘