پاکستان: سولر انرجی سے سات لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی استعداد
4 ستمبر 2014پاکستان میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومتی سطح پر منصوبہ بندی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ماحول دوست، پائیدار اور محفوظ طریقے سے بجلی حاصل کرنے کے لیے شمسی توانائی کی طرف توجہ دی جا رہی ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی اور اس سے متعلق مصنوعات پر کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے CEMCO کے سربراہ محمد حیان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں روزانہ اوسطاﹰ 16 گھنٹے تک روشنی موجود ہوتی ہے۔ اگر اس روشنی کو صحیح طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو پاکستان شمسی توانائی سے سات لاکھ میگا واٹ تک بجلی حاصل کر سکتا ہے۔ محمد حیان کے مطابق اگر سورج کی حرارت کا صرف صفر اعشاریہ دوفیصد (%0.2)حصہ استعمال میں لایا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی بجلی پوری دنیا کے لیے کافی ہوگی۔
’پاکستان کونسل آف رینیوایبل انرجی ٹیکنالوجی‘ کے انجینئر انور عزیز کا کہنا، ’’ پاکستان میں تقریباﹰ پورا سال سورج کی روشنی موجود ہوتی ہے جس سے ہم سولر پینلز کے ذریعے اتنی بجلی پیدا کرسکتے ہیں جو پورے ملک کی استعمال کے لیے کافی ہے۔‘‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ایک وسطی شہر بہاولپور میں پاکستان کے پہلے بڑے سولر پاور پارک کا افتتاح کیا گیا ہے اور یہ رواں برس دسمبر تک 100 میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع کر دے گا۔ منصوبے کے مطابق 2016ء کے اختتام تک اس سولر پارک سے بجلی کی پیداوار بڑھ کر ایک ہزار میگا واٹ تک جا پہنچے گی۔
انور عزیز کہتے ہیں، ’’واپڈا ہر سال 250 سے 300 ارب روپے سبسڈی دیتا ہے، اگر ہر سال اس سبسڈی کا 30 فیصد تک حصہ بھی سولر سسٹم نصب کرنے کے لیے لگایا جائے تو ہم اگلے 15 سال کے اندر شہری آبادی کا 80 فیصد حصہ شمسی توانائی پر منتقل کر سکتے ہیں۔ اس طرح گرڈ اسٹیشنز پر لوڈ بھی کم ہوگا۔‘‘
CEMCO کے سربراہ محمد حیان کے مطابق ایسے صارفین جو اپنے طور پر سولر پینلز لگا کر بجلی پیدا کر رہے ہیں ان کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ عام روشنیوں اور مشینوں کی بجائے ایل ای ڈی (LED) بلب اور کم توانائی استعمال کرنے والی مشینیں چلائیں۔
محمدحیان کا کہنا ہے کہ اگر چہ سولر پینل بازار سے آسانی کے ساتھ گھریلو صارفین کے لیے دستیاب ہیں لیکن اس سے مکمل استفادے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے، ’’اگر حکومت یا کوئی اور ادارہ اس کے گرڈ اسٹیشن بنالے اور پھر گھروں کو اس سے بجلی فراہم کرے، اور ان سے مناسب قیمت وصول کرے تویہ منصوبہ زیادہ کامیا ب ہوسکتا ہے، ورنہ انفرادی طور پر اس پر ابتداء میں کافی خرچہ آتا ہے۔‘‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر سال 2020ء تک ملک کوتقریباﹰ 40 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہو گی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس موجود وسائل یعنی شمسی توانائی اور دیگر متبادل طریقوں کی پیدواری صلاحتیں، اگر درست طریقے سے استعمال کی جائیں تو ملک میں ضرورت سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ یوں با آسانی بجلی کے بحران پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ زائد بجلی دوسرے ممالک کو فروخت کر کے زر مبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔