پاکستان سے صرف جھوٹ اور دھوکہ ملا، صدر ٹرمپ
1 جنوری 2018امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے خلاف اس تازہ ترین ٹویٹ پیغام میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو تینتیس بلین ڈالر کی خطیر رقم کی امداد دینے کے باوجود امریکا کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ٹرمپ نے مزید لکھا ہے کہ پاکستان کو دی جانے والی یہ امداد امریکا کی بے وقوفی تھی اور بدلے میں پاکستانی حکومت نے اُسے دھوکے اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
نئے سال کے پہلے دن اس ٹویٹ میں ٹرمپ نے پاکستان کے لیے سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امريکا جن دہشت گردوں کو افغانستان میں تلاش کر رہا ہے، پاکستان انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔ ٹرمپ نے ’ نو مور ‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو مزید امداد نہ دیے جانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
امریکا کی جانب سے اس بیان پر پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے صدر ٹرمپ کے اس بیان کا جلد ہی جواب دیا جائے گا اور حقائق اور من گھڑت کہانیوں میں فرق کو دنیا کے سامنے واضح کر دیا جائے گا۔
اس حوالے سے پاکستان میں دفاعی امور کی ماہر ماریہ سلطان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے امریکا کا تازہ بیان افسوسناک ہے اور حقائق پر مبنی نہیں ہے۔
ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ یہ رقوم، جن کا الزام پاکستان پر عائد کیا جا رہا ہے، وہ امریکا نے اپنے سفیر کو دیے یا پھر افغانستان پاکستان کے لیے اپنے خصوصی نمائندے کو دیے۔ سو اس کا جواب بھی انہی کو دینا چاہیے۔ اور یا پھر وہ امریکن کانٹریکٹرز امریکا کے اس الزام کا جواب دیں جن کو یہ رقم دی گئی۔
ماریہ سلطان کا مزید کہنا تھا، ’’بات یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف امریکا کی مدد کی ہے بلکہ اس کی بہت بڑی قیمت بھی ادا کی ہے۔ امریکا نے افغانستان میں پہلے القاعدہ کے خلاف جنگ شروع کی اور پھر طالبان کے خلاف۔ پھر امریکا کا موقف یہ بھی رہا کہ طالبان سے مذاکرات کرنے چاہئیں تاہم وہ طالبان کے حقانی گروپ سے جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو اپنے مسائل کا سیاسی، عسکری اور معاشی حل افغانستان میں نظر آ رہا ہے۔‘‘
پاکستان کے ایک اور دفاعی تجزیہ کار لیفٹینیٹ جنرل امجد شعیب نے ٹرمپ کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کسی بھی فریق سے زیادہ کام کیا ہے۔ جنرل شعیب کے مطابق ، ’’ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے افغانستان کے لیے اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لیں۔‘‘