پاکستان، صوفی روایات، جرمن مصنف کی کتاب
13 نومبر 2013اُنہوں نے یہ باتیں اپنی نئی کتاب ’نوکٹرنل میوزک ان دی لینڈ آف صوفیز، اَن ہَرڈ پاکستان‘ کی تعارفی تقریب میں کہیں۔ اس دوران اُنہوں نے ان سوالات پر بحث کی کہ آیا سندھ کے صوفی ناکام ہوگئے ہیں اور آیا پاکستان میں اب صوفی روایات کا پاس نہیں رکھا جاتا۔
بعد ازاں ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے میونخ یونیورسٹی کے مشرقِ قریب اور مشرقِ وُسطیٰ سے متعلق علوم کے شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر فریمبگن نے کہا کہ راواداری اس خطے کی روایات میں شامل ہے۔ یہاں کے صوفیوں کا قول رہا ہے کہ اپنا عقیدہ نہ چھوڑو اور دوسرے کا عقیدہ مت چھیڑو۔ انہوں نے کہا کہ اگر والدین اپنے بچوں کو کسی طور صوفی تعلیمات سے روشناس کروا سکیں تو رواداری کی روایات یہاں پھر سے جڑ پکڑ سکتی ہیں۔
اُن کی کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔ اس اشاعتی ادارے کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سیّد کے مطابق پروفیسر فریمبگن کی اس کتاب میں ایک ایسے پاکستان کا ذکر ہے، جس میں دہشت گردوں کے علاوہ بھی لوگ رہتے ہیں۔ وہ لوگ، جو ابھی بھی صوفی روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو امن پسند ہیں اور طالبان کی تقلید نہیں کرتے۔ امینہ سیّد کہتی ہیں کہ پروفیسر فریمبگن کی پہلی کتابیں بھی کچھ اسی قسم کی ہیں اور ان میں سے ایک میں تو پاکستان کے پاپولر کلچر پر صوفی چھاپ سے متعلق تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔
لیکن پروفیسر فریمبگن یہ بھی کہتے ہیں کہ جعلی صوفیوں سے بھی بچنا بہت ضروری ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ کون کہتا ہے کہ وہ صوفی ہے، بلکہ یہ دیکھیے کہ کون سچ مچ تصوف کے خیالات پر چلتا ہے۔ مثلاً یہ احساس کس میں ہے کہ بڑی گاڑی، نیا گھر اور دوسرے دنیاوی عیش و آرام سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، ان کے نتیجے میں تو معاشرے میں مزید مسائل جنم لیتے ہیں۔ کراچی میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات باقاعدگی سے مختلف مزاروں اور خاص طور پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر چند وہ خود تصوف سے قریب ہونے کے دعوے دار نہیں لیکن مزاروں کا ماحول انہیں تصوف کے قریب ضرور لاتا ہے کیونکہ یہاں کوئی طبقاتی تفریق نہیں ہوتی۔ انہیں ایسے مقامات پر قوالی وغیرہ سن کر ایک سکون کا سا احساس ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سکون ان کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، کم سے کم وہ دنیاوی جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ امینہ سیّد کہتی ہیں کہ پروفیسر فریمبگن نے ان مزاروں پر پیش کی جانے والی موسیقی پر بھی بہت کام کیا ہے۔کتاب میں کہا گیا ہے کہ پروفیسر فریمبگن نے اس موسیقی کو دل کے کانوں سے سنا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ صوفی گلوکارہ عابدہ پروین صوفی ازم کو محبت کا پیغام کہتی ہیں۔ عشق حقیقی میں ڈوب کر صوفیانہ کلام گانے والی عابدہ کا کہنا ہے کہ صوفی ازم کا مطلب روحانیت کی اصلاح ہے جبکہ روحانیت کے آگے کوئی پابندی کام نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہیں کہ صوفی ازم بلا رنگ و نسل انسانیت سے انس اور اس کی خدمت کا درس دیتا ہے، دنیا میں صوفی ازم اور عارفانہ کلام مقبول ہو رہا ہے، صوفی ازم میں ظاہری کچھ نہیں ہے، یہ لوگوں کو سچائی کی جانب بلاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ صوفی ازم اور عارفانہ کلام کو انسانوں کے لیے روحانی تسکین ہی کا نہیں بلکہ جنگ وجدل اور لسانی و مذہبی تفریق جیسی الجھنوں کی شکار انسانیت کے لیے نجات کا بھی پیغام سمجھا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صوفی میوزک اور صوفیانہ کلام اور ان کے گائیکی کی مقبولیت آج بھی اقوام عالم میں برقرار ہے۔
پروفیسر فریمبگن کا کہنا ہے کہ تصوف معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کا اچھا توڑ ہے خصوصاً اس وقت جب اس معاشرے کی روایات میں صوفی جا بجا موجود ہیں۔ لیکن وہ ایک تنبیہ بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تصوف سے یہ توقع لگانا کہ وہ چٹکی بجاتے میں دہشت گردی کے مسئلے کو حل کر دے گا، ذرا زیادتی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ راستہ اتنا آسان اور مختصر نہیں کہ جلد کٹ جائے۔ تصوف کی تعلیمات میں عدم تشدد اور بھائی چارے کی خیالات شامل ہیں اور یہ خیالات ہی انسان اور انسان کے بنائے ہوئی معاشروں کو امن اور سکون کی طرف لے جا سکتے ہیں۔