پاکستان، ’موت کے سوداگروں‘ کے ہاتھوں زندگی فروخت
25 مئی 2021وہاں سے وہ باآسانی دکانوں پر سگریٹوں کی خریدو فروخت کی فوٹیج مل گئی۔ آفس کے ساتھ ہی ایک کالج بھی تھا، جہاں کے عموما طالب علم قریب موجود ڈھابوں پر بیٹھ کر دوپہر کے کھانے کے ساتھ ساتھ سگریٹ نوشی کرتے پائے جاتے ہیں، ان کے ساٹ بھی مل گئے۔ گو کہ ٹیم اپنا کام مکمل کر کے خوشی خوشی واپس آئی۔ اسکرپٹ لکھا گیا، ہیڈ آفس سے منظور بھی ہو گیا۔ اب پیکج بننے کی باری ہے تو ایسے میں ہیڈ آفس سے ایس او پیز جاری ہوئیں کہ پیکیج میں سگریٹ کھوکھوں کی فوٹیج نہیں لگانی، نہ سگریٹ کی ڈبی کی تا کہ سگریٹ کی پروموشن نہ ہو۔
اسی اثنا میں کالج پرنسپل کا پیغام بھی آ گیا کہ ہمارے طالب علموں کی جو فوٹیج اور ساٹ لیے ہیں، وہ ٹی وی پر نہ چلائے جائیں کیونکہ اس سے کالج کی بھی بدنامی ہو گی۔ اداراے کی پالیسی اور پرنسپل کی درخواست کے بعد جیسے تیسے کر کے ایک پھیکی سی رپورٹ بن گئی، جو کہ بلیٹن میں وقت کی کمی کا کہہ کر وہ بھی پروڈیوسر نے نہیں چلائی۔
انہی دنوں ملک میں تمباکو کے خلاف مہم کا آغاز ہوا تو ڈائریکٹر نیوز کی جانب سے ہمیں پیغام آیا کہ انسداد تمباکو کے حوالے سے کوئی بھی خبر نہیں چلے گی۔ سو چینل کی پالیسی کے سامنے ہم نے بھی سر تسلیم خم کیا۔
لیکن اب تقریبا ہر ٹی وی چینل اور اخبار میں آپ کو سگریٹ کی تجارت کے حوالے سے اشتہار ملے گا۔ مجھے یہ دیکھ کر افسوس بھی ہوا کہ ایک ٹی وی چینل پر سگریٹ کمپنیوں کے اشتہار کے فورا بعد کینسر ہسپتال کا اشتہار بھی چلایا گیا۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ کینسر ہونے کی ایک بڑی وجہ سگریٹ نوشی بھی ہے۔ ان 'موت کے سوداگر وں‘ کے خلاف اشتہار اورخبر چلانا ہم پر ممنوع ہے جبکہ وہ اس زہر کو ہمارے معاشرے میں پھیلانے کے مختلف طریقے اپنا رہے ہیں۔
عموما سگریٹ نوشی کے نقصانات اور مرد حضرات پر فوکس کیا جاتا ہے لیکن یہ سگریٹ نوشی تیزی سے خواتین میں بھی مقبول ہو رہی ہے ۔ مرد حضرات تو سب کے سامنے کش لگانے میں بھی جھجک محسوس نہیں کرتے جبکہ خواتین معاشرے کے ڈر سے کہ کہی ان کی کردار کشی نہ ہو، اس لئے چھپ کر استعمال کرتی ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سگریٹ نوش خواتین کی تعداد سگریٹ نوش مردوں سے کم ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ 20 لاکھ افراد روزانہ سیگریٹ نوشی کرتے ہیں۔
پاکستان میں تمباکو کے استعمال سے متعلق آخری سروے 2014 میں کیا گیا تھا، جس کے مطابق 22.2 فیصد مرد اور 2.1 فیصد خواتین تمباکو نوش تھیں اور تمباکو چبانے والی خواتین کا تناسب اس سے کہیں زیادہ تھا۔
یہ سروے اس بار کورونا وائرس اور 'ملکی اور غیر ملکی تمباکو کمپنیوں کے مالکان کے اثرورسوخ‘ کے باعث نہ ہو سکا۔
یہ خواتین، اس بات سے قطع نظر کہ سگریٹ نوشی مردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے زیادہ خطرناک ہے، دفاتر، کالجز، یونیورسٹیز میں چھپ کر جبکہ کیفے، آئس کریم پارلرز ، شیشہ خانوں، چائے خانوں، نجی دعوتوں وغیرہ میں کھلے عام سگریٹ نوشی کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ بالغ ہونے اور ان جگہوں کے قوانین کے مطابق انہیں سگریٹ نوشی سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔
چاہے خاتون خود سگریٹ نوشی کرے یا اس کے قریب بیٹھا کوئی شخص سگریٹ پی رہا ہو، دونوں صورتوں میں خاتون کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ خواتین کو مختلف بیماریاں اور صحت کی پیچیدگیاں اکثر سگریٹ کے دھویں کے سبب ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر ضیاءالدین اسلام، جو کہ تمباکو کنٹرول سیل کے انچارج بھی رہے (یاد رہے حکومت نے تمباکو کنٹرول سیل حال ہی میں ختم کر دیا ہے) کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوش نقصان دہ ذرات کا 15 فیصد حصہ اپنے پاس برقرار رکھتا ہے اور بقیہ 85 فیصد ہوا میں چھوڑ دیتا ہے۔ یہ 85 فیصد نقصان دہ ذرات پاس بیٹھے افراد کی صحت کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کا شکار زیادہ تر خواتین اور بچے ہوتے ہیں کیونکہ اکثر مرد حضرات گھروں میں سب کے درمیان بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگاتے ہیں، جس سے ان کے اردگرد موجود افراد متاثر ہوتے ہیں۔
یہاں ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کا ذکر کرنے کی بھی ضرورت ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سگریٹ نوشی کا خارجی دھواں دل کے نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے خون کے پلیٹلیٹس اکٹھے رہتے ہیں، خون کی نالیوں کی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے اور دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ سگریٹ کا یہ خارجی دھواں سانس میں شامل ہو کر دمے کا بھی سبب بنتا ہے۔
اسی طرح جو مائیں سگریٹ نوشی کی عادی ہوتی ہیں، وہ سگریٹ کے دھویں کے سبب اپنے بچوں کی جان کو بھی خطرے میں مبتلا کرتی ہیں۔ یہ دھواں ان بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں روکاوٹ بنتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق سگریٹ کے دھویں سے بچوں کو بیماریوں کا خطرہ 50 سے 100 فیصد تک ہوتا ہے، جس میں دمہ، کان کا انفیکشن، چڑ چڑا پن، مزاج میں خرابی اور نومولود کی اچانک موت شامل ہیں۔
وہ خواتین جو حمل کے دوران سگریٹ نوشی کرتی ہیں، وہ اس زہر کو کوک میں اپنے بچے تک بھی پہنچا دیتی ہیں۔ حمل میں سگریٹ نوشی کے نتیجے میں اسقاط حمل، قبل از وقت بچے کی پیدائش اور بچے کا وزن کم ہونا جیسی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، جو بعد میں بچے کی زندگی کو دائمی بیماریوں سے دوچار کر دیتی ہے۔
پاکستان میں ’تمباکو مافیا‘ کی طاقت
ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ حمل کے دوران سگریٹ نوشی بچے کی نشوونما پر برے اثرات ڈالتی ہے، جیسے کہ کٹے ہوئے ہونٹ، جسمانی اعضاء میں کمی یا پیدائشی دل کی خرابیاں ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور حمل کے دوران بھاری تمباکو نوشی کے نتیجے میں بچہ نیکوٹین پر انحصار کے ساتھ پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح صحت مند بچے کی پیدائش میں باپ کا صحت مند ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ماں کا۔ تمباکو نوشی سے نطفہ کے معیار پر اثر پڑتا ہے اور بچے کی پیدائش اور صحت سے متعلق مسائل جیسے بچپن کا کینسر، جینیاتی امراض، نومولود کی اچانک موت جیسے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
اسے ہمارا الیمہ ہی کہہ لیں کہ ملک میں آٹا 65 روپے کلو، چینی 90 روپے کلو، چاول 120 سے 200 روپے کلو اور دال150 سے 270 روپے کلو میں فروخت جبکہ سگریٹ کی ڈبی 80 سے 300 روپے میں آسانی سے دستیاب ہے۔ یعنی زندہ رکھنے والی خوراک مہنگی اور موت دینی والی سستی ہے۔
ہر سال بجٹ کی تیاری کے دوران سگریٹ کی قیمتوں کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ انسداد تمباکو مہم کے حمایتی ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سگریٹ پر ٹیکس لگا کر اسے مزید مہنگا کیا جائے تا کہ لوگ خرید نہ پائیں اور سگریٹ نوش افراد کی تعداد کم ہو سکے۔
جبکہ تمباکو مافیا اس کے منافی حکومت اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے مہم چلاتے ہیں کہ سگریٹ پر ٹیکس لگنے سے لوگوں میں غیر قانونی سگریٹ خریدنے کا رجحان بڑھے گا۔ ان دلائل کو بھاری رپورٹس کا لبادہ اوڑھا کر تعطل کا شکار کرتے ہیں اور ٹیکس چھوٹ لے اڑتے ہیں۔ 2020ء کے بجٹ میں بھی یہی ہوا۔ سگریٹ ڈیوٹی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
افسوس کی بات ہے کہ ان 'موت کے سوداگروں‘ کے اثرورسوخ کے باعث ملک میں تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کا ہدف پورا نہیں کیا جا سکا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ بات ہمارے ملک کے لئے شرمندگی کا باعث بن رہی ہے کیونکہ پاکستان نے بھی انسداد تمباکو سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن پر دستخط کیے ہیں۔ جس کی شرائط کے مطابق پاکستان ہر سال سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے کا پابند ہے تاکہ یہ 'زہر‘ عوام کی پہنچ سے دور رہے۔
سینٹر فار گلوبل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کی طرف سے ''پاکستان میں تمباکو نوشی کے صحت پر اثرات‘‘کے عنوان سے جاری ہو نے والی رپورٹ میں حکومت کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ انسداد تمباکو نوشی کے قوانین پر عملدرآمد کرایا جائے اور اس حوالے سے ملٹی نیشنل تمباکو کی صنعت قانون ساز اداروں پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 15ممالک میں شامل ہے، جہاں تمباکو نوشی سے متعلق انسانوں کو صحت کے پیچیدہ ترین مسائل کا سامنا ہے۔ سگریٹ نوشی کے باعث پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جا تے ہیں۔ تمباکو فری کڈز کمپین کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کے لیے ٹیکسیشن کے نظام کو استعما ل کر ے۔
وفاقی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق تمباکو کے استعمال سے ہونے والی بیماریوں کا سالانہ مالی بوجھ تقریبا 615 ارب روپے ہے، جو تمباکو کی صنعت کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہے۔
کیا حکومت کے نزدیک پاکستانیوں کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں؟ ہماری حکومت دوسرے ممالک میں ہونے والے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ دیگر ملکوں کے خلاف اجلاس بلواتی ہے، مذمتی بیانات دیتی ہے، ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور خود اپنی عوام کی زندگیوں کو 'موت کے سوداگروں‘ کے حوالے کر رکھا ہے۔ کیوں تمباکو مافیا کو اتنی چھوٹ دی جا رہی ہے کہ وہ ہمارے ملک کی پالیسی سازی پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟ کیا ہم پاکستانی اچھی خوراک اور صحت کے حق دار نہیں؟ کیا ہماری حکومت ہماری جانوں کو ان 'سگریٹ کے سوداگروں‘ کے آگے بیچ دے گی؟
تمباکو مافیا چاہے جتنا مرضی اثرورسوخ رکھتا ہو۔ لیکن عوام وہ طاقت ہے کہ جب مل کر آواز اٹھائیں تو کوئی ان کا حق دبا نہیں سکے گا۔ آپ اور آپ کے پیاروں کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ صحت مند زندگی گزاریں۔ ہم میں سے کئی لوگوں نے سگریٹ نوشی کے باعث اپنوں کو کھویا ہے، بیماریوں میں مبتلا تڑپتے ہوئے دیکھا ہے، ذہنی تناو کا شکار پایا ہے، بچوں کا چڑچڑاپن جھیلا ہے۔ ضرورت ہے کہ سگریٹ نوشی کے خلاف ہم متحد ہو جائیں ۔ سب مل کر حکومت سے سگریٹ پر اضافی ٹیکس لگانے یا اسےملک سے مکمل ختم کرنے کا مطالبہ کریں۔