’پاکستان ميں صحافی تلوار تلے جی رہے ہيں‘
4 مئی 2014پاکستان کے سينئر صحافی حامد مير پر نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے انيس اپريل کو جنوبی شہر کراچی ميں حملہ کيا، جس ميں وہ شديد زخمی ہوئے۔ حملے کے بعد حامد مير کے بھائی نے ٹيلی وژن چينل پر نشر کردہ ايک پروگرام کے دوران اِس کا الزام پاکستانی خفيہ ايجنسيوں پر عائد کيا۔ بعد ازاں ديگر کئی نشرياتی اداروں نے بھی متعلقہ چينل کو ’غدار‘ قرار ديتے ہوئے، اُس پر کڑی تنقيد کی۔ ديکھتے ہی ديکھتے يہ بحث کافی شدت اختيار کر گئی اور اِن دنوں ملک ميں ميڈيا کے کردار اور شعبے کی ريگوليشن کی بات چل رہی ہے۔
پاکستان کے ايک اور سينئر صحافی اويس توحيد نے اِس حوالے سے ڈوئچے ويلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی نشرياتی ادارے کو يہ حق نہيں کہ وہ کسی کو غدار يا حُب اُلوطن قرار دے۔ تاہم اُنہوں نے پاکستان ميں ذرائع ابلاغ کی ريگوليشن کی ضرورت پر زور بھی ديا۔ اويس توحيد کا کہنا تھا، ’’وقت آ گيا ہے کہ نشرياتی ادارے صحافيوں کی تنظيموں کے ہمراہ ميڈيا کے قوائد و ضوابط طے کر ليں۔ ورنہ ممکن ہے کہ مستقبل میں کوئی سرکاری ادارہ يہ کام اپنے ذمے لے لے ۔‘‘ توحيد نے ڈی ڈبليو سے گفتگو کے دوران پاکستان اليکٹرانک ميڈيا ريگوليٹری اتھارٹی پر بھی تنقيد کی، جس کا کردار اُن کے بقول نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری جانب پاکستان ميں سپريم کورٹ کی جانب سے تشکيل کردہ ميڈيا کميشن کی رپورٹ منگل کے روز جنوبی شہر کراچی ميں منعقدہ ايک تقريب ميں جاری کی گئی۔ اويس توحيد اِس موقع پر ہونے والے مباحثے میں پينلسٹ کی حیثیت سے موجود تھے۔ اویس کے بقول، ’’اُنہوں نے غير فعال ريگوليٹری اتھارٹی پيمرا اور وزارت معلومات کی تنظيم نو کی بات کی ہے۔ اِس کے علاوہ رپورٹ ميں ميڈيا سيکٹر کے ريگوليشن کے حوالے سے بھی سفارشات پيش کی گئی ہيں۔‘‘ ميڈيا کميشن کی يہ رپورٹ ريٹائرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد اور سابق سينيٹر جاويد جبار نے تشکيل دی ہے۔
دريں اثناء ايمنسٹی انٹرنيشنل کی جانب سے تيس اپريل کو جاری کردہ رپورٹ ميں پاکستان ميں صحافيوں کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحافيوں کو قتل، تشدد، حراساں کيے جانے اور ديگر اقسام کے تشدد کا مسلسل سامنا ہے اور يہ خطرات نہ صرف طالبان جيسے مسلح گروپوں بلکہ ملکی ايجنسيوں سے بھی ہيں۔ اس بارے ميں بات کرتے ہوئے اويس توحيد نے کہا کہ پاکستان ميں بحيثيت صحافی کام کرنا، تلوار تلے جينے کے برابر ہے۔ ’’پاکستانی آئين ہر شہری کو آزادی رائے کا حق ديتا ہے تاہم اسی دوران حکومتی پاليسياں بنيادی حقوق کو منفی انداز سے متاثر کر رہی ہيں اور اِنہی کی بدولت خفيہ ايجنسياں مخصوص وقت کے ليے کسی بھی شخص کو حراست ميں لے سکتی ہيں اور اِسے عدالت تک ميں چيلنج نہيں کيا جا سکتا۔‘‘ اويس توحيد کے بقول وہ آئين کے آرٹيکل انيس ميں ترميم کے خواہاں ہيں، جو کہ آزادی رائے کا حق تو ديتا ہے لیکن اس آرٹیکل میں واضح طور سے کہا گیا ہے کہ آزادئی رائے سے دفاعی، سلامتی اور دین اسلام کو کوئی ٹھیس نہیں لگنی چاہیے۔