1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: بلوچ مارچ کے مظاہرین کی گرفتاریاں اور ان پر ’تشدد‘

21 دسمبر 2023

اسلام آباد کی پولیس نے وفاقی دارالحکومت کے متعدد علاقوں سے ان درجنوں بلوچ مظاہرین کو گرفتار کر لیا، جو جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج کے لیے تربت سے آ کر اسلام آباد میں دھرنا دینا چاہتے تھے۔

https://p.dw.com/p/4aQfC
بلوچ یکجہتی مارچ
اس بلوچ یکجہتی مارچ میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، جو چھ دسمبر کو تربت سے روانہ ہوا تھا۔ اس کی قیادت لوچ خاتون ماہ رنگ بلوچ کر رہی ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar

دارالحکومت اسلام آباد میں حکام نے بلوچ مظاہرین کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی، جنہیں روکنے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر واٹر کینن اور آنسو گیس کے گولے استعمال کیے۔ بعض مقام پر فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور ان پر لاٹھی بھی چارج کی۔

بلوچستان: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ریلی کوئٹہ پہنچ گئی

اس حوالے سے بعض ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، جس میں بعض مقامات پر پولیس مظاہرین کو اپنی وین کی جانب گھسیٹتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستانی فوج پر تنقید کرنے والے منظور پشتین پھر گرفتار

پولیس نے نیشنل پریس کلب کے باہر مظاہرین کی جانب سے نصب کیے گئے کیمپ اور لاؤڈ اسپیکرز کو بھی اکھاڑ دیا ہے۔ 

پاکستان: شدت پسندوں کے ساتھ تصادم میں دو فوجی ہلاک

اس بلوچ یکجہتی مارچ میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، جو چھ دسمبر کو تربت سے روانہ ہوا تھا۔ اس کی قیادت بلوچ خاتون ماہ رنگ بلوچ کر رہی ہیں۔

بلوچستان کے ضلع تربت میں دہشت گردانہ حملہ، چھ مزدور ہلاک

یہ لوگ لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری کے مطالبات کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔

بلوچ یکجہتی مارچ
بلوچ یکجہتی مارچ میں شامل لوگ لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری کے مطالبات کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں مظاہرہ کرنا چاہتے تھےتصویر: Abdul Ghani Kakar

پولیس نے کیا کہا؟

اسلام آباد کی پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک خواتین سمیت تقریباً 226 مظاہرین کو چونگی نمبر 26 اور نیشنل پریس کلب کے باہر ہونے والی پولیس کارروائیوں کے دوران گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار کیے گئے لوگوں کو آبپارہ، کوہسار، سیکرٹریٹ اور  مارگلہ جیسے تھانوں میں رکھا گیا ہے جبکہ خواتین مظاہرین کو ویمن پولیس مراکز منتقل کیا گیا ہے۔

بلوچستان: عید میلاد النبی کے جلوس پر خود کش حملہ، کم ازکم 52 افراد ہلاک

رات گئے جاری ہونے والے ایک بیان میں پولیس کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین میں وہ ''نقاب پوش افراد بھی شامل تھے جو ڈنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔''

پولیس نے کہا کہ مظاہرین کو ہائی سکیورٹی والے زون میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے غیر مہلک طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے۔ پولیس نے طاقت کے استعمال سے ''مکمل طور پر گریز کرنے'' کی بات کہی۔

پولیس ترجمان نے کہا کہ مظاہرین نے بعض جگہوں پر پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا اور ''اس کے جواب میں، پولیس نے کئی مظاہرین کو گرفتار اور حراست میں لیا ہے۔''

اس سے پہلے جب بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کا مارچ اسلام آباد پہنچا تھا، تو ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے مظاہرین کو چونگی نمبر26 پر روک دیا تھا۔ اس کی وجہ سے مظاہرین نے وہیں احتجاجی دھرنا شروع کر دیا تھا۔

بلوچستان کی خواتین فلم کی دنیا میں اپنی پہچان بنا رہی ہیں

'جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے'

انسانی حقوق کی معروف کارکن ماہ رنگ بلوچ نے پولیس کی کارروائی مذمت کی اور کہا کہ ''پرامن بلوچ ماؤں، بہنوں پر لاٹھی اٹھانا ریاست کے کھوکھلا ہونے کا ثبوت ہے۔۔۔۔ ریاست کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم گرفتاریوں اور تشدد سے کمزور ہوں گے اور نہ ہی جدوجہد سے پیچھے ہٹیں گے۔''

ماہ رنگ بلوچ کو بدھ کے روز دیر رات میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ''گزشتہ 20 روز سے جاری ان کی تحریک نہ رکی ہے اور نہ آگے رکے گی۔ جہاں جہاں سے یہ مہم گزری ہے وہاں گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ہم ریاست پر واضح کرتے ہیں کہ نہ ہم گرفتاریوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی تشدد سے پیچھے ہٹیں گے بلکہ ریاست کا ہر ایسا قدم ہمیں مزید حوصلہ دے گا اور ہم ریاست کے ہر ایسے عمل کے خلاف مزید شدت سے ابھریں گے۔''

پولیس کے تشدد کی مذمت

پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن نے اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین پر پولیس کے پرتشدد کریک ڈاؤن کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اس نے کہا کہ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے خلاف ''غیر ضروری طاقت'' کا استعمال کیاگیا۔''

 کمیشن نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، ''پرامن اسمبلی کے اپنے آئینی حق کو استعمال کرنے والے بلوچ شہریوں کے ساتھ یہ سلوک ناقابل معافی ہے۔ یہ اس بات کا بھی عکاس ہے کہ ریاست مظاہرین کی زندگی اور آزادی کے حق کو برقرار رکھنے کے ان کے مطالبے کے بارے میں کتنا کم سوچتی ہے۔''

انسانی حقوق کے کمیشن نے حراست میں لیے گئے تمام افراد کو غیر مشروط طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ''ایک بار پھر ہم فوری طور پر حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مظاہرین سے ملنے اور ان کے جائز مطالبات کی منصفانہ سماعت کے لیے ایک وفد کا انتظام کرے۔''

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

چار دہائيوں پر مشتمل اندھيروں کا سفر