پاکستان میں جیل ٹرائل تاریخ کے آئینے میں
30 اگست 2023پاکستان کی صوبائی جیلوں کے قواعد پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان میں مخلتف مقدمات میں جیل کے اندر سماعت کی کافی گنجائش رکھی گئ ہے۔ تاہم عام طور دیکھنے میں آیا ہے کہ انتہائی خطرناک دہشت گردوں اور مجرموں کے علاوہ عام طور پر صرف سیاستدانوں ہی کو جیل ٹرائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسی لیے سیاسی نوعیت کے مقدمات کی جیل میں سماعت کو عام طور پر انصاف کے مسلمہ تقاضوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین مقدمہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہورہا کہ ایک سیاست دان کا ٹرائل جیل میں کیا جا رہا ہو۔ مختلف ادوار میں حکومتیں اپنے مخصوص مخالفین کا ٹرائل جیل میں ہی کرتی رہی ہیں۔
سیاست دان نشانے پر
حیدرآباد میں مقیم دانشور امداد قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ 1950ء کی دہائی میں پنڈی سازش کیس میں بھی سماعت جیل کے اندر ہی ہوئی تھی جبکہ 70ء کی دہائی میں حیدرآباد سازش کیس میں بھی جو سیاسی قائدین گرفتار کیے گئے تھے ان کی بھی سماعت جیل کے اندر ہوئی تھی۔
قانون دان ریاض حسین بلوچ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بھی کچھ کارکنان کے مقدمات کی سماعت جیل میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ اس کے علاوہ دہشت گردی کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں اس میں جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے کارکنان اور ایم کیو ایم کے کچھ کارکنان کے خلاف مقدمات کی بھی سماعت جیل کے اندر ہوئی۔
انصاف کے تقاضوں کے منافی؟
جیل کے اندر سماعت کے بارے میں عام تاثر یہ ہےکہ یہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوتی ہے، جب حکومت من مانے فیصلے کرنا چاہتی ہے اورعوام کو اس بات سے بے خبر رکھنا چاہتی ہے کہ اس سماعت کے دوران کیا کارروائی کی گئی، استغاثہ اور وکیل صفائی نے کیا دلائل پیش کیے اور جج نے کن بنیادوں پر فیصلہ کیا۔
ایڈووکیٹ نثار شاہ کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت عمران خان کی سیاسی مقبولیت سے خوفزدہ ہے اور اس لیے اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں جیل کے اندر کسی بھی مقدمے کی سماعت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ یہ سماعت آپ کسی فوجی عدالت میں کر رہے ہیں۔ فوجی عدالت میں بھی آپ اپنی پسند کا فیصلہ چاہتے ہیں اور عمران خان کے کیس میں بھی یہ نظرآ رہا ہے کہ حکومت اپنی پسند کا فیصلہ چاہتی ہے۔‘‘
مقدمے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا
تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جیل میں سماعت سے مقدمے کی صحت پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا کیونکہ کسی بھی مقدمے کا فیصلہ دلیلوں اور شواہد پر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسویشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں جیل میں مقدمات کی سماعت کوئی انوکھی بات نہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نہ صرف یہ کہ سیاسی کارکنان کے مقدمات جیل کے اندر زیر سماعت رہے ہیں بلکہ میں نے خود عام لوگوں کی بھی مقدمات جیل میں لڑے ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا مقدمہ میں نے لڑا، جس کی قبائلی دشمنی چل رہی تھی اور وہ مقدمہ میں نے جیتا بھی۔‘‘
ریاض حسین بلوچ کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ جیل میں مقدمہ چلانا نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ مقدمے کے دوران طریقہ کار کیا اپنایا گیا ہے، ''ظاہر ہے کہ اہم بات یہ ہے شواہد کو صحیح طریقے سے ریکارڈ کیا گیا ہے یا نہیں۔ ملزم کو صفائی کا بھرپور موقع دیا ہے یا نہیں۔ یہ تمام معاملات دیکھنے ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہائی کورٹ ایسے مقدمات کو غلط قرار دے دیتا ہے۔‘‘
سکیورٹی ایک اہم مسئلہ یا بہانہ؟
واضح رہے کہ عمران خان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے اور ان کی سکیورٹی ایک اہم معاملہ ہے۔ ریاض حسین بلوچ کا کہنا ہے، ''میرے خیال سے حکومت اگر جیل میں اس مقدمے کی سماعت کر رہی ہےتو یہ کوئی غلط نہیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کے حوالے سے سکیورٹی خدشات ہیں۔ ان کی زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جیل کے اندر مقدمہ چلانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔''
تاہم نثار شاہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کا معاملہ سکیورٹی کا نہیں بلکہ عمران خان کے مخالفین اور طاقتور حلقے انہیں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کا مقدمہ کھلی عام میں نہیں چلایا جا رہا۔ کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے سے حکومت کو یہ بھی خدشہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا، جویقیناً حکمرانوں کے حق میں نہیں