پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم: وجوہات کیا ہیں؟
30 اکتوبر 2022گزشتہ بیس برسوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین بنائے گئے ہیں لیکن پھر بھی خواتین کے خلاف جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکا۔
اعداد وشمار
واضح رہے کہ کچھ دنوں پہلے رکن قومی اسمبلی مسرت رفیق مہیسر کے سوال پر وزیر برائے انسانی حقوق میاں ریاض حسین پیرزادہ نے ایوان کو بتایا کہ خواتین کے خلاف قتل، تشدد، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنے، ونی، جسمانی ہراسگی، زنا بالجبر، گینگ ریپ، حراستی تشدد، جنسی ہراسگی اور اغوا سمیت کئی جرائم ہوئے۔ دو ہزار انیس میں ایسے جرائم کی تعداد تقریبا پچیس ہزار تین سو نواسی تھی، دو ہزار بیس میں تیئیس ہزار سات سو نواسی جبکہ دو ہزار اکیس میں چودہ ہزار ایک سو نواسی تھی۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صرف وہ واقعات ہیں، جو درج ہوئے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ہزاروں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں، جو سماجی دباؤ اور بدنامی کے خوف سے خواتین درج نہیں کراتی۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سماجی کے کئی حصوں میں خواتین کو انتہائی بے وقعت سمجھا جاتا ہے۔ بعض معاملات میں انتہائی معمولی بات پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ تشدد شدید ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ ان کی ہلاکت کی صورت میں نکلتا ہے۔
معمولی بات پر قتل
ایسے ہی ایک مبینہ قتل کے حوالے سے ڈی ڈبلیو نے سندھ کے شہر کشمور کے ایک شہری سے بات کی، جس کا دعوی ہے کہ اس کی بہن پر ایک مرغی گم ہو جانے کی وجہ سے پہلے تشدد کیا گیا اور پھر اس تشدد کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئی۔
کشمور کے کلواڑ محلے کے رہائشی تیئیس سالہ محمد شعیب کلواڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری پینتیس سالہ بہن صغرہ کلواڑ محلہ، کشمور، میں رہتی تھی، جہاں چھ اکتوبر کو اس کی ساس نے اس پر الزام لگایا کہ اس نے مرغی چوری کرکے اپنے میکے والوں کو دی ہے۔ جب اس نے بھرپور احتجاج کیا اور اس کی بات کا انکار کیا، تو صغرہ کے دو دیور عالمگیر کلواڑ اور جہانگیر کلواڑ بھی اس جھگڑے میں کود پڑے اور انہوں نے صغرہ کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ پہلے انہوں نے صغرہ کو تھپڑ مارے اور بعد میں انہوں نے اس کا گلا دبایا۔اس تشدد سے صغرہ کی بعد میں موت واقع ہو گئی۔‘‘
شیعب کا کہنا تھا کہ جب چھ اکتوبر کو اس نے تشدد کا سنا تو وہ اور اس کی والدہ صغرہ کو لینے سسرال گئے، ''عالمگیر اور جہانگیر نے ہمیں گالیاں دینا شروع کر دیں اور وہ ہمیں ہماری بہن نہیں دے رہے تھے۔ اس لیے ہم تھانے پہنچ گئے اور وہ بھی وہاں آ گئے۔ تھانے سے آنے کے بعد ہم صغرہ کو ہسپتال لے گئے اور جب عالمگیر اور جہانگیر کو یہ معلوم ہوا کہ صغرہ کا انتقال ہو گیا ہے، تو پھر وہ بھاگ گئے۔ ہم نے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرا دیا ہے۔ لیکن پولیس انہیں نہیں ڈھونڈ رہی ہے۔‘‘
اس تناظر میں ڈی ڈبلیو کی جانب سے عالمگیر اور جہانگیر کلواڑ سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔
جزا و سزا کے خوف کی کمی
سماجی کارکنان کا خیال ہے کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم کرنے والے عدالتوں سے آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں جب کہ کئی جرائم کا فیصلہ محلے یا دیہات کی پنچائتیں کرتی ہیں، جو عموما مردوں کے ہی حق میں فیصلہ دیتی ہے۔
مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والی حقوق نسواں کی کارکن مختاراں مائی کہتی ہیں کہ جب تک مجرموں کو سزا دینے کا موثر نظام نافذ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک جرائم ختم نہیں ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دیہاتوں کے تھانوں میں وڈیروں کا راج ہے، کوئی ایس ایچ او ان کی مرضی کے بغیر کام نہیں کرتا۔ خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ایسے وڈیرے اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں اور پھر پولیس، عدالت اور قانون کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
مختاراں مائی کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم میں سزا دینے کی شرح بہت کم ہے، ''کیونکہ پولیس والے بھی مرد ہیں۔ عدالتوں میں بھی مردوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ طاقت بھی مردوں کے پاس ہے۔ تو ایسے میں عورت کو کیسے انصاف مل سکتا ہے۔‘‘
نفسیاتی عوامل
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا کی وجہ سے آنے والی معاشی بدحالی نے بھی تشدد کو فروغ دیا ہے اور پوری دنیا میں نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نفسیاتی امور کے ماہر ڈاکٹر بشیر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ معاشی پریشانی سے ذہنی پریشانیاں جنم لیتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسی صورت میں یا تو انسان میں جارحیت زیادہ بڑھتی ہے یا وہ شدید مایوسی کی حالت میں چلا جاتا ہے۔ شدید مایوسی میں جانے والے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ جارحیت کا رجحان رکھنے والے تشدد پر مائل ہو جاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر بشیر حسین شاہ کے مطابق کیونکہ جارحیتپسندانہ مزاج رکھنے والا شخص کمزورں کو نشانہ بناتا ہے، اس لیے عورتیں اس کا شکار زیادہ ہوتی ہیں، ''معاشی پریشانیوں کی وجہ سے گھر کے مسائل بڑھتے ہیں کیونکہ گھر میں عورتیں کمزور ہوتی ہیں، تو ہمارے جیسے پدر سری سماج میں مرد اپنی جارحیت ان پر تشدد کر کے دکھاتا ہے۔‘‘
نشہ اور جرائم
کچھ ماہرین کے خیال میں معاشی بدحالی کی وجہ سے لوگ نشے کی طرف بھی راغب ہوتے ہیں۔ بشیر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں پاکستانی سماج میں نشے کے عادی افراد کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، ''اس نشے کا مختلف طبقوں میں مختلف اثر ہوا ہے۔ نچلے طبقات میں جب مرد کو نشہ نہیں ملتا تو وہ نشہ آور چیز خریدنے کے لیے گھر کی اشیا بیچنا شروع کر دیتا ہے، جس سے گھر میں جھگڑا ہوتا ہے اور عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے اور بعض معاملات میں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ تاہم اعلی طبقات میں مرد نشے کی حالت میں آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور قتل کا ارتکاب کرتے ہیں۔‘‘