پاکستان میں سردیوں کی خریداری مشکل کیوں ہے؟
1 جنوری 2022سردیوں کے ملبوسات تو ایک طرف پاکستان میں کچھ بھی خریدنا ہو تو اس کے لیے بازاروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ جوتے گھسانے پڑتے ہیں۔ تب جا کر کچھ قابلِ قبول مل پاتا ہے۔
مقامی بازاروں میں جو اشیاء موجود ہیں ان کا معیار جتنا ہلکا ہے، قیمت اتنی ہی بھاری۔ گاہک اعتراض کرے تو دکان دار تنک کر کہتے ہیں کہ 'یہ خان کا زمانہ ہے۔ اس میں یہی مل سکتا ہے۔ خریدنا ہے تو خریدو ورنہ نکلو'۔ لوکل برانڈز شلوار قمیض کے علاوہ سردیوں کے ملبوسات کے نام پر کچھ نہیں بناتے۔
کچھ برانڈز پر مغربی ملبوسات بھی موجود ہیں لیکن رواج کچھ ایسا ہے کہ جس چیز کے ساتھ مغرب کا نام لگا ہو اسے پاکستان میں تین سو سے پانچ سو گنا زیادہ قیمت پر بیچا جاتا ہے۔ ایک نامور برانڈ نے سویٹر اور جیکٹ کو بھی مغربی ملبوسات کے سیکشن میں ڈال رکھا ہے، ایسے جیسے مشرق میں ان کے پہننے کا رواج ہی نہ ہو۔
سویٹرز، جیکٹس اور کوٹ سے تو جیسے انہیں بیر ہے۔ بہت سے برانڈز ان میں سے کچھ نہیں بیچتے۔ جو بیچتے ہیں وہ سیل پر بھی ایک ہلکا سا سویٹر پانچ سے آٹھ ہزار روپے کا بیچ رہے ہیں۔ کوٹ اور جیکٹ کی قیمت بارہ ہزار سے شروع ہوتی ہے۔ اچھی کوالٹی کا سویٹر اور کوٹ تو کسی دکان پر نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کبھی غلطی سے نظر آ بھی جائے تو اس کے ساتھ لکھی قیمت اس سے نظر چرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اگر کوئی جرابیں، دستانے، زیرِ جامہ خریدنا چاہے تو اس کے لیے اسے لوکل بازار کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ برانڈز کے ہاں یہ تمام چیزیں دستیاب نہیں ہیں۔ لوکل بازار میں پھر وہی کوالٹی کا مسئلہ آ جاتا ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ وہ چاہیں بھی تو مہنگی خریداری نہیں کر سکتے۔ ایک ایسا انسان جسے آٹھ افراد کی ضروریات پوری کرنا ہوں، وہ ایک فرد کے لیے آٹھ ہزار کی جیکٹ لینے سے بہتر انہی پیسوں میں تین افراد کے لیے لنڈا بازار سے جیکٹ لینے کو ترجیح دیتا ہے۔
اور صاحب، قیمت کو بھی ایک طرف رکھیں۔ پاکستان میں موسمِ سرما کی خریداری کرنے کے لیے عوام کو لنڈا بازار کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ انہیں وہاں اشیاء کی جو ورائٹی اور معیار ملتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔
مقامی کاروبار بھی اسی وجہ سے سردیوں کے ملبوسات پر دھیان نہیں دیتے۔ جب کسی نے خریدنے ہی نہیں تو وہ انہیں رکھ کر کیا کریں گے۔ بس نام کے کچھ ڈیزائن لے آتے ہیں اور انہیں اپنی مرضی کی قیمت پر فروخت پر لگا دیتے ہیں۔
کسی دور میں لنڈا بازار کو غریبوں کا بازار کہا جاتا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے میں یہ تفریق بھی مٹ گئی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو لنڈا بازار میں لے آئی ہے۔ یہاں انہیں دنیا کا ہر برانڈ ملتا ہے لیکن استعمال شدہ حالت میں۔ پہلے لنڈا بازار سے لائی گئی چیزوں کے ساتھ شرم کا فیکٹر جڑا ہوتا تھا۔ اب یہی فیشن ہے۔ مشرق میں بھی مغرب میں بھی۔
کوئی زیادہ ہی بات کرے تو اسے کہہ دیں کہ آپ ماحول دوست ہیں۔ آپ نئی چیز خرید کر ماحول کو مزید خراب نہیں کر سکتے۔
لنڈا بازار بھی اب غریب سٹائل بازار نہیں رہے۔ پچھلے چند برسوں میں ان کا سٹائل یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ ٹین کی چادروں سے بنی دکانیں سیمنٹ سے بنی پکی دکانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ دکاندار بھی پڑھ لکھ گئے ہیں۔ انہیں پتہ ہے آپ وہاں کیوں آئے ہیں۔ آپ کے پاس وہاں سے خریداری کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ آپ کو جو مال وہاں ملے گا وہ ڈھیروں کوششوں کے بعد بھی کہیں اور نہیں ملے گا۔
وہ گاہک کی ضرورت دیکھتے ہوئے مال کو باقاعدہ چھانٹی کے بعد ڈرائی کلین کر کے اچھے سے ہینگروں میں لٹکا کر رکھتے ہیں۔ ایسے جیسے وہ لنڈا بازار میں نہیں بلکہ کسی بڑے سے مال میں دکان سجائے بیٹھے ہوں۔ انہیں برانڈز کی پہچان بھی ہو گئی ہے اور وہ ان کی وقعت بھی جانتے ہیں۔ کوئی ان سے بحث کرے تو وہ اسے صاف کہہ دیتے ہیں کہ اتنا مہنگا لگتا ہے تو جا کر نیا خرید لو۔
اس نازک صورتحال میں لوگوں کے پاس ایک ہی آپشن رہ جاتا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم رشتے دار۔ سردیوں میں شادیاں بھی ریکارڈ کے حساب سے ہوتی ہیں۔ ان شادیوں میں شرکت کے لیے بیرونِ ملک مقیم رشتے دار آ رہے ہوں تو ان سے اچھا سا سویٹر یا کوٹ لانے کی فرمائش کر دی جاتی ہے۔ جو فرمائش نہ کر سکتے ہوں وہ بس دعا کر لیتے ہیں کہ یا الٰہی میرے رشتے دار کے دل میں میرے لیے اچھا سا سویٹر لانے کی خواہش ڈال دے۔
اب ہر کوئی اپنا اپنا دیکھ لے کہ اسس نے فرمائش کرنی ہے یا دعا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔