پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا موسم
19 اپریل 2018انہوں نے تحریکِ انصاف میں ایک ایسے وقت میں شمولیت اختیار کی ہے، جب سابق کرکٹر عمران خان نے اپنی پارٹی سے اُن درجنوں اراکینِ کے پی اسمبلی کو نکالنے کا اعلان کیا، جنہوں نے اُن کے مطابق سینیٹ کے انتخابات میں اپنا ووٹ بیچا تھا۔
کچھ دنوں پہلے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے متعدد اراکینِ قومی اسمبلی و پنجاب اسمبلی نے مسلم لیگ نون سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ ان اراکین نے پنجاب میں ایک نیا صوبہ بنانے کے حوالے سے ایک محاذ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی صوبہ محاذ کی قیادت رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے خسرو بختیار کر رہے ہیں، جو پارٹیاں تبدیل کرنے کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اس محاذ کے رہنما اب مزید اراکینِ پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی سے رابطے کر رہے ہیں۔
لیکن نون لیگ کو چھوڑ کر جانے والے یہ کوئی پہلے نہیں تھے۔ کچھ مہینوں پہلے نون لیگ کے اراکینِ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی نے بھی ختم نبوت کے قانون میں مبینہ تبدیلی کی وجہ سے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ تاہم ان میں سے کچھ نے یہ استعفٰی واپس لے لیا تھا۔
حالیہ برسوں میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے ہوا، جب چاروں صوبوں کے روایتی سیاست دانوں نے جوق در جوق پی ٹی آئی اور نون لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ ایک اندازے کے مطابق نون لیگ نے سو سے زائد ایسے روایتی سیاست دانوں کو دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں اپنی صفوں میں جگہ دی، جو ماضی میں پرویز مشرف اور ق لیگ کے ساتھ رہے چکے تھے۔ پی پی پی کے کئی نامور رہنما جیسے کہ شاہ محمود قریشی، فردوس عاشق اعوان، بابر اعوان، صمصام بخاری اور نذر محمد گوندل پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔
اس کے علاوہ عمران خان کی پارٹی نے نون لیگ کے رہنما محمد سرور سمیت کئی اور نامی گرامی افراد کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا۔ دوسری جانب نون لیگ نے بھی حالیہ ہفتوں میں پی ٹی آئی کے کچھ رہنماوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے۔
کراچی میں یہ عمل پاک سرزمین پارٹی کی تشکیل کے بعد سے شروع ہوا۔ اس پارٹی نے اب تک ایم کیو ایم کے درجن بھر سے زائد اراکینِ سندھ اور قومی اسمبلی کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ کئی ماہرین کے خیال میں سندھ میں اس عمل کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ لیکن سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے خیال میں سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کا یہ جو عمل ہے، یہ انجنیئرڈ ہے۔ ڈوئچے ویلے کو اس مسئلہ پر اپنا نقطہء نظر سے آگاہ کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا، ’’اگر آپ کو اپنی پارٹی سے سیاسی اختلاف ہے اور آپ اس وجہ سے پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں تو یہ ایک مختلف مسئلہ ہے لیکن جس طرح سے یہ انجینئرڈ سیاسی وفاداری کا عمل کرایا جارہا ہے۔ یہ جمہوریت، سیاسی استحکام اور ملکی مستقبل کے لئے بہتر نہیں ہے۔‘‘
سیاسی وفاداریوں کو تبدیل کرانے کے حوالے سے پی پی پی پر بھی الزامات لگتے رہے ہیں اور حالیہ سینیٹ انتخابات میں اس جماعت پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس نے ووٹ خریدیں ہیں۔ رضا ربانی اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہیں، ’’ہم نے خیبر پختونخوا میں مختلف جماعتوں سے اتحاد کیا اور وہاں پسند اور ترجیحات کے مطابق لوگوں نے اپنا ووٹ ڈالا۔ ووٹ خریدنے کا تاثر بالکل غلط ہے۔‘‘
اس سوال پر کہ کیا ندیم افضل چن کے بعد بھی پارٹی سے کوئی جائے گا، سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ پارٹی سے مزید کوئی پی ٹی آئی میں شامل ہو گا۔ تاہم اسلام آباد میں پارٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب سے پارٹی کے کچھ رہنما اب بھی پی ٹی آئی یا دوسری جماعتوں میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل سے سب سے زیادہ ن لیگ کو خطرہ ہے۔ پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں پنجاب سے ن لیگ کو مزید نقصان ہونے جا رہا ہے، ’’میرے خیال میں جنوبی پنجاب سے تو ن لیگ کا صفایا ہو جائے گا۔ وراثتی سیاست دانوں کو معلوم ہے کہ نواز شریف زیرِ عتاب ہیں۔ تو جو پارٹی تبدیل نہیں بھی کر سکتے ، وہ کم از کم پارٹی چھوڑ کر آزاد انتخابات لڑیں گے اور پھر اس کے بعد دیکھیں گے کہ کس کا پلہ بھاری ہے۔ پارٹی چھوڑنے والوں کی ایک بڑی تعداد وہ ہوگی جو ہمیشہ حکومت میں رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
احسن رضا کی اس بات سے ن لیگ کے سابق رہنما سینیٹر ذوالفقار کھوسہ بھی اتفاق کرتے ہیں،’’ن لیگ میں اس وقت ایک بڑ ی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جو مشرف کے ساتھ تھے۔ اس پارٹی کے ساتھ یہ تو ہونا ہی تھا۔ جو مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ رہے، ان کو پارٹی نے صرف اس لئے نظر انداز کیا کیوں کہ وہ یس مین نہیں تھے۔ اب اگر نواز شریف کو سزا ہوگئی تو پھر پارٹی میں بہت بڑے پیمانے پر انتشار پھیلے گا۔ لیکن اگر سزا نہیں بھی ہوئی تو پارٹی کو اتنی سیٹیں نہیں ملیں گی کہ وہ پنجاب میں حکومت بنا سکے۔‘‘
ن لیگ اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے حال ہی میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ پارٹی چھوڑ کے جانے والوں کو دوبارہ نہیں لیں گے۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاست وراثتی رہنماوں کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس بات کا اعتراف تبدیلی کا نعرے لگانے والی پی ٹی آئی بھی کرتی ہے۔ پارٹی کے رہنما خرم شیر زمان کے مطابق ان کی جماعت کو اس بات پر کوئی پریشانی نہیں ہے کہ الیکٹیبل ان کی صفوں میں آ رہے ہیں،’’ہر جماعت کو الیکشن جیتنے کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو انتخابات جیت سکیں۔ تو اگر ہماری پارٹی میں ایسے افراد آرہے ہیں تو ہمیں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ مجھے تو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ ایسے افراد ہماری پارٹی میں آرہے ہیں۔‘‘
تاہم سیاسی مبصرین کے خیال میں جب تک سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کا سیاسی جماعتیں بائیکاٹ نہیں کریں گی، اس وقت تک ملک میں جمہوریت مستحکم نہیں ہوگی کیونکہ جو آج ایک پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ کل دوسری بھی چھوڑ سکتے ہیں۔