پاکستان میں شیر، نیلام ہونے کے لیے تیار
6 اگست 2022لاہور کے سفاری چڑیا گھر کے ڈپٹی ڈائریکٹر احمد جنجوعہ کا کہنا ہے کہ اس چڑیا گھر میں ان جنگلی جانوروں کی تعداد اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ شیروں اور ٹائیگرز کو باری باری باہر لے جانا پڑتا ہے۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''نیلامی سے نہ صرف ہمارے ہاں جگہ خالی ہو گی، بلکہ ان کو کھانا کھلانے کے لیے خریدے جانے والے گوشت کے اخراجات میں بھی کمی واقع ہو گی۔‘‘
چڑیا گھر میں اس وقت 29 شیر ہیں اور حکام گیارہ اگست کے روز ان میں سے 12 شیروں کی فروخت کے لیے نیلامی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نیلام کیے جانے والے شیروں کی عمریں دو اور پانچ برس کے درمیان ہیں۔
علاوہ ازیں چھ ٹائیگر اور دو جیگوار بھی شامل ہیں۔
جانوروں کے حقوق کے کارکن تاہم اس نیلامی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تحفظ ماحول کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ نیلام کیے جانے کی بجائے ان جانوروں کو دوسرے چڑیا گھروں میں بھیج دیا جانا چاہیے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی عظمیٰ خان نے اے ایف پی کو بتایا، ''چڑیا گھروں کے مابین جانوروں کا تبادلہ اور عطیہ کرنا ایک مروجہ طریقہ کار ہے۔ تاہم جب چڑیا گھر جیسا ادارہ جنگلی جانوروں کی قیمت لگاتا ہے تو اس سے تجارت کو فروغ ملتا ہے، جو جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘
پاکستان میں شیر، ٹائیگر اور دیگر جنگلی جانوروں کو پالتو جانور کے طور پر گھر میں رکھنا کوئی غیر معمولی بات نہیں، بلکہ اسے دولت مند ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
کئی امیر افراد ایسے جنگلی جانوروں کے ساتھ اپنی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
چڑیا گھر کے حکام کے مطابق ان جانوروں کی بولی ڈیڑھ لاکھ روپے سے شروع ہو گی لیکن انہیں امید ہے کہ نیلامی کے دوران قیمت 20 لاکھ پاکستانی روپے فی جانور تک پہنچ جائے گی۔
نیلامی میں کون حصہ لے سکتا ہے؟
جنجوعہ کا کہنا ہے کہ شیروں کی خریداری کے لیے اس نیلامی میں ہر کوئی حصہ نہیں لے سکتا۔
ان کے مطابق خریداروں کو علاقائی حکام کے ساتھ رجسٹر کرانا ہو گا اور یہ ظاہر کرنا ہو گا کہ وہ ان جانوروں کی دیکھ بھال کرنے کے اہل ہیں۔
چڑیا گھر کے ویٹرنری افسر محد رضوان نے بتایا کہ گزشتہ برس بھی شیروں کی نیلامی کی کوشش اس لیے ناکام ہو گئی تھی کیوں کہ ممکنہ خریداروں کے پاس ضروری دستاویزات اور لائسنس موجود نہیں تھے۔
اس مرتبہ بولی میں حصہ لینے کے خواہش مندوں میں نعمان حسن بھی شامل ہیں۔ نعمان کو گزشتہ برس اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ایک شیر کو پٹا ڈال کر لاہور میں گھماتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
نعمان حسن نے اے ایف پی کو بتایا، ''اس مرتبہ میں تین میں سے کم از کم دو شیروں کو خریدنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
پاکستان میں جانوروں کی بہبود کے لیے قانون سازی کا فقدان ہے اور ملک بھر کے زیادہ تر چڑیا گھر جانوروں کے لیے ناقص سہولیات کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہیں۔ تاہم 200 ایکڑ پر پھیلا لاہور سفاری اپنی سہولیات کی وجہ سے بہترین چڑیا گھروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اپریل سن 2020 میں پاکستان کی ایک عدالت نے ناقص سہولیات اور جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک رکھے جانے کی معلومات کے بعد ملکی دارالحکومت کے واحد چڑیا گھر کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
اسی چڑیا گھر کے کاون نامی ایشیائی ہاتھی کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی دنیا بھر میں خبروں کی زینت بنا تھا۔ بعد ازاں اس ہاتھی کو کمبوڈیا بھیج دیا گیا تھا۔
ش ح/ک م (اے ایف پی)