پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج کو بھارت کیسے دیکھتا ہے؟
26 جولائی 2018پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی قیادت میں نئی حکومت کی تشکیل کے امکانات کی خبروں کے درمیان بھارت میں اعلی حکام اور ماہرین اسلام آباد کی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس دوران بھارت کے برّی ، بحری اور فضائی افواج کے سربراہان نے آج جمعرات کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں وزیرِ دفاع نرملا سیتا رمن سے ملاقات کی۔ گوکہ اس ملاقات کے حوالے سے حکومتی طورپر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم بتایا جاتا ہے کہ اعلی فوجی رہنماؤں اور وزیرِ دفاع نے عمران خان کی قیادت میں نئی پاکستانی حکومت کی تشکیل کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ حالات پر غور و خوض کیا۔
اگرچہ پاکستان کے انتخابی نتائج پر بھارتی وزارت خارجہ نے ابھی باضابطہ طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او ) میں وزیر مملکت ڈاکٹر آر کے سنگھ نے نامہ نگاروں کے ایک سوال کے جواب میں کہا،’’فوج ابتدا سے ہی اِن(عمران خان) کی مدد کررہی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عمران خان ہمیشہ سے فوج کے امیدوار رہے ہیں۔ یہ بات ہم نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کہہ رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر سنگھ کا مزید کہنا تھا، ’’جہاں تک بھارت کا معاملہ ہے تو اِن (عمران خان) کے وزیر اعظم بننے سے کوئی تبدیلی نہیں ہونے والی ہے۔ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کی ایکسپورٹ جیسے اہم امور تبدیل نہیں ہونے والے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی آرمی ہی پالیسی طے کرتی ہے اور آئندہ بھی وہی کرے گی۔‘‘
بھارت میں عام رائے یہ ہے کہ عمران خان پاکستانی فوج کی مدد سے الیکشن لڑ رہے تھے اس لئے اگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے یا آرمی کی حمایت سے ’کٹھ پتلی‘ حکومت بنتی ہے تو یہ دونوں ہی بھارت کے حق میں نہیں ہوں گے اور اس سے خطے میں امن و سلامتی کو نئے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
سابق سفیر اور بین الاقوامی اُمور کے ماہر اے این جھا کا اس حوالے سے کہنا ہے،’’عمران خان کی قیادت والی یا پھر بغیر اکثریت والی حکومت پاکستانی فوج کے دباؤ میں کام کرنے کے لئے مجبور ہوگی۔ چونکہ پاکستانی فوج کا موقف ہمیشہ بھارت کے خلاف رہا ہے اس لئے بھارت کو نہایت سوجھ بوجھ اور حکمت کے سفارتی اقدامات کرنے ہوں گے۔‘‘
اس دوران حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جنرل سکریٹری رام مادھو نے پاکستان کی نئی حکومت کو مشورہ دیا کہ اسے ’سرد جنگ کی ذہنیت‘ سے باہر نکلنا ہوگا۔ ایک تقریب کے دوران نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے رام مادھو کا کہنا تھا، ’’ہمیں امید ہے کہ نئی حکومت بھارتی خودمختاری، مساوات، فطری دوستی جیسی اپروچ کا مثبت جواب دے گی اور وہ صر ف پیشگی شرائط عائد نہیں کرے گی۔‘‘
رام مادھو کا مزید کہنا تھا، ’’گو اسلام آباد کے ساتھ فطری دوستی نا گزیر ہے لیکن اس فطری دوستی کے لئے ساز گار ماحول بھی ضروری ہے۔ اگر پاکستان دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو بھارت وہاں کی کسی بھی حکومت سے بات کرنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کر ے گا۔‘‘
بی جے پی کے سینیئر رہنما نے تاہم اس کے ساتھ یہ شرط بھی عائد کی،’’ پاکستان کو اپنی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ کوئی بھی ملک ایسے کسی بھی ملک سے بات چیت نہیں کرسکتا جہاں سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں چل رہی ہوں۔‘‘
بی جے پی کے ایک اور رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی سے جب صحافیوں نے پاکستان کے عام انتخابات کے بعد کی صورت حال پر تبصرہ کرنے کے لئے کہا تو ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں پاکستان کی طر ف سے کسی بھی ممکنہ جنگ کا جواب دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں پاکستان کو ختم کرنے اور چارٹکڑوں میں تقسیم کردینے کیلئے تیار رہنا چاہئے اور اس کیلئے موقع کا انتظار کرنا چاہئے۔‘‘
سبرامنیم سوامی کا مزید کہنا تھا، ’’عمران خان فوج کی کٹھ پتلی ہیں۔ انہیں کٹھ پتلی سمجھنا ہی اچھا ہے۔ کم از کم وہ نواز شریف کی طرح یہ دکھاوا تو نہیں کرتے ہیں کہ وہ فوج کی کٹھ پتلی نہیں ہیں۔ پاکستان کے تمام سیاست دان، آئی ایس آئی،فوج اور طالبان کی کٹھ پتلی ہیں۔‘‘
بھارت میں تجزیہ کاروں کی عام رائے یہ ہے کہ پاکستان میں خواہ کسی کی بھی حکومت قائم ہو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کسی فوری تبدیلی کی توقع عبث ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہر اور تھنک ٹینک آبزرو ریسرچ فاونڈیشن میں سینیئر فیلو سشانت سرین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’کسی پیش رفت کی امید کم ہے۔ اس لئے یہ جھوٹی امیدرکھنے کے بجائے کہ اسلام آباد کی نئی حکو مت امن میں شراکت دار ہوگی، بھارت کو اس سے زیادہ خراب صور تحال کے لئے خود کو تیار رکھنے کی ضرورت ہے جس کا تجربہ اسے پچھلے ستر برسوں کے دوران ہوچکا ہے۔‘‘
دریں اثناء اپوزیشن کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے پاکستان کے عام انتخابات کے حوالے سے ایک دلچسپ مشورہ دیا ہے۔ راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ بھارت کو پاکستان سے سبق لیتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی جگہ بیلٹ پیپر کا استعمال دوبارہ شروع کردینا چاہئے۔ اس سے بجلی کی بھی کافی بچت ہوگی۔ خیال رہے کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کا الزام لگاتی رہی ہیں۔