پاکستان میں قانون سازی کرنے والے خود ہی قانون سے بالا تر؟
15 نومبر 2022پاکستان میں ایوان بالا یعنی سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے ایک ایسے مسودہ قانون کی منظوری دی ہے، جو اراکین پارلیمان کو کسی بھی جرم میں فوری گرفتاری یا حراست میں لیے جانے سے استثنٰی مہیا کرتا ہے۔
قانون کی حکمرانی: پاکستان کی صورتحال پر تشویش
اس کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں اراکین سینٹ اور قومی اسمبلی کے استحقاق اور استثنٰی سے متعلق پیپلز پارٹی ہی کے سینیٹر رضا ربانی کی طرف سے پیش کیے گئے اس بل کے مسودے کا جائزہ لیا گیا۔
بل میں پیش کی جانے والی تجاویز
اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ کسی بھی رکن پارلیمان کو قومی اسمبلی یا سینٹ کا اجلاس شروع ہونے سے آٹھ دن قبل تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی رکن پارلیمان کی گرفتاری کو اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی اجازت سے مشروط کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اس بل میں کسی بھی گرفتار رکن پارلیمنٹ کی سینیٹ یا قومی اسمبلی اور ان کی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت یقینی بنانے کے لیے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کو بھی لازمی قرار دیے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔
شہباز گل پر تشدد کی خبروں پر کئی حلقوں میں تشویش
'پارلیمنٹ ایکٹ کا نفاذ ضروری ہے‘
رضا ربانی نے کمیٹی کو بتایا کہ ارکان پارلیمنٹ کو سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے حراست میں رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو پہلے ہی خط لکھ چکے ہیں۔ سکریٹری پارلیمانی امور نے کہا کہ قومی اسمبلی پہلے ہی اس حوالے سے اپنے رولز میں ترمیم کر چکی ہے اس لیے سینیٹ بھی رولز میں ترمیم کر سکتی ہے۔ تاہم سینیٹر رضا ربانی نے زور دے کر کہا کہ رولز میں ترامیم کافی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا ایکٹ نافذ کیا جائے گا۔
بعد ازاں کمیٹی نے سینیٹر ربانی کے پیش کردہ اس بل کوسینیٹر علی ظفر، سینیٹر ولید اقبال اور سیکرٹری پارلیمانی امور کی جانب سے تجویز کردہ ضروری ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا۔
سیاسی انتقام کا خاتمہ ضروری
اس پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عفان اللہ خان کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا صرف ایک ہی بنیادی مقصد ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو سیاسی بنیادوں پر انتقام اور ہراساں کیے جانے کے اقدامات کا موثر طریقے سے خاتمہ کیا جا سکے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کمیٹی کے اجلاس میں تمام اراکین نے خوب غورکرنے کے بعد اپنی سفارشا ت مرتب کیں، تاکہ ملک کے لیے قوانین بنانے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ آئے دن کی سیاسی گرفتاریوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں، سو ہم نے ایک کوشش کی ہے۔‘‘
مسودہ قانون کے حوالے سے تحفظات
تاہم دوسری جانب اس مسودہ قانون کے اس کی موجودہ حالت میں منظوری کے حوالے سے تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری اداروں کی مضبوطی اور فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیپاکستان میں مزاحمت کی سیاست کا مستقبل؟ولپمنٹ(پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ قانون سازوں کی طرف سے اس نوعیت کے بل کی منظوری بظاہر ایک درست عمل معلوم نہیں ہوتی۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پاکستان کا شمار پہلے ہی ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں اراکین پارلیمنٹ کو وہ استحقاق حاصل ہیں، جو دیگر بہت سے جمہوری ممالک کے ارکین پارلیمنٹ کو حاصل نہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں رکن پارلیمنٹ کو گرفتاری یا حراست کے دوران ایوان میں پیش کرنے کے لیے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جا سکتے ہیں، لیکن ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو رہے، احمد بلال
احمد بلا ل محبوب کا کہنا تھا کہ فی الحال یہ مسودہ قانون انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا نظر نہیں آتا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بھی رکن پارلیمنٹ کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس سلسلے میں اگر ملکی قانون کا تقاضہ یہ ہے کہ ملزم کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے تو اس رکن پارلیمنٹ کو بھی فوری گرفتار کیا جانا چاہیے، ناکہ اس کے لیے کسی سے اجازت طلب کرنے میں وقت ضائع کیا جائے۔
پاکستانی ارکان پارلیمان نے اپنے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرا دیے
احمد بلال محبوب نے اراکین پارلمینٹ کے اس مؤقف پر کہ انہیں اکثر سیاسی وجوہات پر گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''بعض کیسز میں ہو سکتا ہے ایسا بھی ہو لیکن اس بات کا تعین کیسے کیے جائے گا کہ کون سی گرفتاری سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہے اور کون سی کسی حقیقی جرم کی پاداش میں کی جارہی ہے، تو میرے خیال سے کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو اس قانون کی آڑ لے کر اپنے جرم سے بچنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ احمد بلال محبوب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر اس بل کو اس کی موجودہ حثیت میں پارلیمان سے منظوری مل بھی جاتی ہے، تو اسے با آسانی اعلی عدلیہ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
ردوبدل کی جا سکتی ہے
سینٹر عفنان اللہ خان نے اس نوعیت کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' قانون سازی کے لیے سفارشات کی پارلیمنٹ سے ابھی منظوری نہیں دی گئی۔ اب یہ سفارشات جب دونوں ایوانوں کے سامنے جائیں گی تو ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس میں ردو بدل کر سکتے ہیں۔ ہم جمہوری لوگ ہیں اور ہر وقت تصیح کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان سفارشات کے ناقدین کو پاکستان کے سیاسی کلچر اور اس سے جڑے مضمرات کے بارے میں اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہیے، '' اگر رضا ربانی، تاج حیدر، بیرسٹر علی ظفر اور مجھ جیسے لوگ اس طرح کی قانون سازی کی سفارش کر رہے ہیں تو اس کے پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے کہ ہم صرف غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو روکنا چاہتے ہیں۔‘‘