پاکستان میں مادری زبانوں کا چوتھا ادبی میلہ اختتام پذیر
ہر سال اکیس فروری کو منائے جانے والے مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں لوک ورثہ کے زیر اہتمام پاکستان میں بولی جانے والی مادری زبانوں کے ادب کا چوتھا دو روزہ میلہ منعقد کیا گیا۔
بلھے شاہ سے خطوط غالب اور سیف الملوک تک
اس سال یہ دو روزہ ادبی میلہ ہفتہ سولہ فروری کو شروع ہو کر اتوار سترہ فروری کو اپنے اختتام کو پہنچا۔ شکر پڑیاں میں واقع سرسبز لوک ورثہ میں اپنی نوعیت کے اس چوتھے میلے کے آخری روز بھی مہمانوں کی بڑی تعداد کے باعث خاصی گہما گہمی نظر آئی۔
’ہماری زبانیں، ہماری پہچان‘
یہ میلہ انڈس کلچر فورم، لوک ورثہ، ایس پی او فاؤنڈیشن، اوپن سوسائٹی انسٹیٹیوٹ، ادارہ ثقافت سندھ اور سوسائٹی فار الٹرنیٹو میڈیا اینڈ ریسرچ کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا۔ میلے میں پندرہ زبانوں کے ڈیڑھ سو سے زائد ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے شرکت کی۔
جرمن فاؤنڈیشن بھی
اس تصویرمیں جرمنی کی فریڈرش ناؤمن فاؤنڈیشن کا ایک بڑا پوسٹر بھی دیکھا جا سکتا ہے، جس نے اس میلے کے لیے منتظمین سے تعاون کیا۔ دو روزہ تقریبات کے دوران مختلف نشستوں کا اہتمام کیا گیا اور ایک مشاعرے کے انعقاد علاوہ موسیقار اورعلاقائی رقص کرنے والے فنکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔
علاقائی ثقافتی رنگ
اس میلے کے دوران رنگا رنگ کلچرل اسٹال بھی لگائے گئے تھے، جو میلے کے شرکاء کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث بنے اور رنگا رنگ علاقائی رقص بھی بہت پسند کیے گئے۔
سندھی زبان میں ہندو مذہبی ادب
میلے کے ایک اسپانسر ادارے سوسائٹی فار الٹرنیٹو میڈیا اینڈ ریسرچ کے مظہرعارف کے مطابق اس ادبی میلے کا مقصد مادری زبانوں کی ترویج ہے اور اس میلے میں ملک بھر سے مادری زبانوں کے نمائندہ شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کر کے ان زبانوں کی اہمیت اور ان کے درپیش مسائل پر روشنی ڈالی، جس سے ان زبانوں کو درپیش چیلجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
مختلف مادری زبانوں میں شائع ہونے والا ادب
دو روزہ ادبی میلے میں سندھی، بلوچی، باہوائی، سرائیکی، پنجابی اور کئی دیگر زبانوں میں لکھی گئی کتابیں پیش کی گئیں اور کئی مادری زبانوں میں نئی شائع ہونے والی کتب کی رونمائی کی تقریبات کا اہتمام بھی کیا گیا۔
پونے دو سو سال پرانے سندھی خاکے
یہ تصویر سندھ کے ایسے خاکوں کے ایک مجموعے کا ٹائٹل ہے، جو قریب پونے دو سو سال قبل 1846ء میں برطانوی فوج کے ایک لیفٹیننٹ نے بنائے تھے۔ ان ڈرائنگز کی مدد سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ انیسویں صدی کے وسط میں برصغیر سے باہر کے کسی فنکار نے سندھ کو کیسا دیکھا تھا۔
پنجابی لوک فنکار اور رقص
پاکستان میں مادری زبانوں اور علاقائی ثقافتوں کی بات ہو اور روایتی پنجابی رقص اور چمٹے کے ساتھ گائے جانے والے لوک گیتوں کا ذکر نہ ہو، ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ اس میلے میں دیگر علاقوں سے آنے والے فنکاروں کے علاوہ پنجابی لوک فنکار بھی مسلسل دو روز تک میلے کے مہمانوں کی دلچسپی کا مرکز بنے رہے۔
ثقافتی رنگوں والے ہورڈنگز
اس میلے کے دوران جگہ جگہ پاکستان کی مختلف علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کو اجاگر کیا گیا تھا، جیسے کہ اس بہت بڑے ہورڈنگ کی شکل میں۔ مہمان کم قیمت پر مادری زبانوں میں چھپی کتابیں خرید سکتے تھے۔ اس بار اس میلے میں معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کی یاد میں بھی ایک نشست رکھی گئی جبکہ اختتامی تقریب کو رسول بخش پلیجو سے منسوب کیا گیا تھا۔