پاکستان میں مختلف دھماکوں میں 13 افراد ہلاک
9 ستمبر 2010خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے اس قبائلی علاقے میں دھماکہ کرم کے مرکزی علاقے پارہ چنار سے 65 کلومیٹر دُور پالاسین گاؤں میں ہوا۔ اسے القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے نئے سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس علاقے میں مقامی انتظامیہ کے نائب سربراہ حامد خان کا کہنا ہے، ’یہ دھماکہ ریموٹ کنٹرول سے اس وقت کیا گیا، جب ایک مسافر وین وہاں پہنچی۔‘ انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد عام شہری تھے۔
پاکستانی طالبان نے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے تناظر میں حکومتی اہداف پر مزید حملوں کی دھمکی بھی دی ہے۔ گزشتہ روز سے ان علاقوں میں چار ڈرون حملے ہوئے، جن میں 19 شدت پسند ہلاک ہوئے۔ تاہم ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں جبکہ شدت پسند حکومتی اعداد و شمار کو ہمیشہ ہی غلط قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں بھی ایک دھماکہ ہوا ہے، جس میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ یہ دھماکہ بلوچستان کے وزیر خزانہ عاصم کرد کے گھر میں ہوا۔ کوئٹہ میں سٹی پولیس کے سربراہ عابد نوتکانی کا کہنا ہے، ’بم مہمانوں کے کمرے میں رکھا گیاتھا، خدا کا شکر ہے کہ اس وقت تک زیادہ تر مہمان وہاں سے نکل چکے تھے۔‘
نوتکانی نے بتایا کہ صوبائی وزیر عاصم کرد محفوظ رہے۔ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا جبکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے، جسے ایک عرصے سے بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے کم تر سطح کی شدت پسندی کا سامنا ہے۔ یہ قوم پرست خودمختاری اور صوبے کے قدرتی وسائل میں زیادہ حصے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے اور اِن حالات میں بھی ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے دوران تقریباﹰ ڈیڑھ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں بدترین دھماکے گزشتہ ہفتے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور اور بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہوئے۔ اِن دونوں شہروں میں خودکش بمباروں نے شیعہ مسلمانوں کے جلوسوں کو نشانہ بنایا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: مقبول ملک