پاکستان میں مزید آٹھ مجرموں کو پھانسی دے دی گئی
15 دسمبر 2015صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں یہ حملہ 16 دسمبر 2014ء کو کیا گیا تھا اور ہلاک شدگان میں 130 سے زائد اس اسکول کے طلبہ تھے۔ اس حملے کے بعد پاکستانی حکومت نے ملک میں پھانسی کی سزا پانے والے مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد پر عائد چھ سالہ پابندی ختم کر دی تھی۔
صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے منگل 15 دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جن مزید آٹھ سزا یافتہ مجرموں کو آج پھانسی دی گئی، وہ ایسے قاتل تھے، جنہیں عدالتوں کی طرف سے سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا اور وہ سب صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں کی جیلوں میں قید تھے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے مشیر برائے امور جیل خانہ جات چوہدری ارشد سعید نے اے ایف پی کو بتایا کہ جن مجرموں کو آج پھانسی پر لٹکا دیا گیا، ان میں سے دو کو ملتان، دو کو بہاولپور، دو کو گجرات، ایک کو اٹک اور ایک کو ڈیرہ غازی خان کی ضلعی جیلوں میں پھانسی دی گئی۔
پشاور اسکول حملے کے بعد شروع میں حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ سزا یافتہ دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا عمل بحال کر دیا جائے گا لیکن پھر اس سال مارچ میں ایسے مجرموں کو پھانسی دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا تھا، جنہیں قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہو۔
پاکستانی حکام نے سرکاری طور پر اس بارے میں کوئی باقاعدہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے کہ مجرموں کو پھانسی دیے جانے پر عائد پابندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک کتنے مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق جب سے حکومت نے اس بارے میں اپنی پالیسی تبدل کی ہے، 300 سے زائد مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل کیا جا چکا ہے۔
سزائے موت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ مجرموں کو پھانسی پر لٹکا دینا ہی وہ سب سے مؤثر ذریعہ ہے، جس کے ذریعے ملک میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستانی نظام انصاف اپنی خامیوں کی وجہ سے غیر منصفانہ ہے، جہاں پولیس کی طرف سے تشدد اور عدالتوں میں ملزمان کے حقوق کے ناکافی تحفظ کے واقعات عام ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی کے خاتمے کے اعلان کا مقصد دہشت گردوں کو سزائیں دینا تھا لیکن اب تک جن سینکڑوں مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے، ان کی اکثریت کو سنائی گئی سزاؤں کی وجہ دہشت گردی نہیں بلکہ اس سے مختلف نوعیت کے الزامات تھے۔