پاکستان میں نئی حج پالیسی کا اعلان
3 جون 2010نئی حج پالیسی کے تحت پچاس فیصد حجاج سرکاری جبکہ پچاس فیصد پرائیویٹ حج ٹورز آپریٹرز کے ذریعے فریضہ حج ادا کریں گے۔ مذہبی امور کے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی نے اسلام آباد میں سال 2010ء کے لئے حج پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایئرلائنز کے کرایوں اور سعودی عرب میں رہائش گاہوں کی قیمتیں بڑھ جانے کے سبب اس برس گزشتہ سال کے مقابلے میں حج پیکج میں19 فیصد اضافہ کیا گیا ہے''پی آئی اے کے کرایہ میں 6 ہزار روپے اضافہ ہوا ہے یہ وزارت حج کے دائرہ کار میں نہیں اس کے علاوہ اضافہ 400 سعودی ریال فی حاجی کے حساب سے مکہ میں رہائش کی مد میں بڑھانے پڑےکیونکہ باقی ممالک چار پانچ ہزار ریال تک پہنچ گئے تھے اور ہمیں گزشتہ سال کے ریٹ پر رہائشں گاہیں ملنا بہت مشکل نظر آ رہا تھا۔‘‘
سرکاری خرچ کے تحت کراچی اورکوئٹہ سے حاجی 2,26000/- ہزار روپے جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے 2,38000/- روپے جمع کروا کر حج کر سکیں گے۔ سرحد میں ایم ایم اے کے سابق حکومتی ترجمان اور رکن صوبائی اسمبلی مفتی کفایت اللہ نے نئی حج پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا''موجودہ حکومت وی آئی پی پروٹوکول اور دیگر غیر ضروری اخراجات میں بچت کر کے حج پالیسی نرم بناتے اور لوگوں کےلئے آسانی پیدا کرتے تو اچھا ہوتا۔ لوگ حج پالیسی کا انتظار کرتے ہیں لیکن ہر نئی آنے والی حج پالیسی پاکستان کے مسلمانوں پر بجلی بن کر گرتی ہے۔‘‘
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پرائیویٹ ٹور آپریٹرز فریضہ حج کےلئے مقرر کردہ سرکاری خرچ سے کہیں زیادہ رقم وصول کرتے ہیں اور بعد ازاں عازمین حج سے ان کو ضروری سہولیات مہیا نہ کرنے کی شکایت بھی رہتی ہے۔ جمعیت علمائے پاکستان کے رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ فضل کریم کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ حج ایسے مذہبی فریضے کو تجارت کے طور پراستعمال نہ کرے ''حج مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے اور اس کی ادائیگی میں درپیش مشکلات کم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں نئی حج پالیسی میں حج اخراجات میں اضافے کی جو تجویز دی گئی ہے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے بجائے حکومت خود سارے معاملات سنبھالے جیسا کہ پہلے ہوتا تھا تو کوئی آسان حل نکل سکتا ہے‘‘
خیال رہے کہ دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے حج کا نمبر چوتھا ہے اور ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں مسلمان فریضہء حج کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں۔
رپورٹ : شکور رحیم
ادارت : عدنان اسحاق