پاکستان میں نیا ڈرون حملہ، سات افراد ہلاک
21 فروری 2011پاکستان اور امریکہ کے درمیان لاہور میں27 جنوری کو ریمنڈ ڈیوس نامی ایک امریکی شہری کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کے قتل کے واقعے کے بعد سے کافی زیادہ کھچاؤ پایا جاتا ہے اور امریکہ کے اس مبینہ سفارتی اہلکار کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے واشنگٹن کی طرف سے اسلام آباد پر بہت زیادہ دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اس سفارتی بحران کے پس منظر میں پاکستانی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں پر مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں کچھ وقفہ آ گیا تھا۔ لیکن 21 فروری پیر کے روز تقریبا ایک ماہ کے وقفے کے بعد پہلی مرتبہ جنوبی وزیرستان کے پاکستانی قبائلی علاقے کے صدر مقام وانا سے جنوب کی طرف اعظم ورسک کے مقام پر ایک ڈرون طیارے سے کم از کم چار میزائل فائر کیے گئے، جو متعدد عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا سبب بنے۔
جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ایک اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ نیا ڈرون حملہ عسکریت پسندوں کے ایک مبینہ تربیتی مرکز پر کیا گیا، جس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں مبینہ طور پر چند غیر ملکی شدت پسند بھی شامل ہیں۔
پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کے ایک اور اہلکار نے دعویٰ کیا کہ اس ڈرون حملے میں فائر کیے گئے چار میزائل جن متعدد افراد کی ہلاکت کا سبب بنے، ان میں سے بظاہر تین کا تعلق ترکمانستان سے تھا جبکہ دو دیگر ایک عرب ریاست کے باشندے تھے۔
وانا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق آج پیر کو کیا جانے والا یہ مبینہ امریکی ڈرون حملہ پاکستان کے کسی قبائلی علاقے میں جنوری کی 23 تاریخ کے بعد سے اب تک کیا جانے والا پہلا فضائی حملہ تھا۔ کئی سکیورٹی ماہرین کے مطابق پچھلے قریب ایک مہینے کے دوران امریکہ نے پاکستانی سرزمین پر ایسا کوئی ڈرون حملہ بظاہر اس لیے نہیں کیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین سفارتی بحران اور پاکستان میں امریکہ مخالف عوامی جذبات کو مزید شدید ہونے سے روکا جا سکے۔
چند دیگر ماہرین کے بقول امریکہ نے اگر 23 جنوری سے آج تک پاکستان میں کوئی نیا ڈرون حملہ نہیں کیا تھا، تو اس کا سبب یہ تھا کہ ان قبائلی علاقوں میں خراب موسم کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کا پتہ چلانا اور انہیں کامیابی سے نشانہ بنانا قدرے مشکل ہو گیا تھا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق