پاکستان میں چینی کا بحران سنگین تر
9 نومبر 2010صرف پچھلے دس دنوں میں چینی کی فی کلوگرام قیمت میں 25 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان ایگری فورم کے سربراہ ابراہیم مغل کہتے ہیں کہ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام ایک ایسے وقت پر چینی کو ترس رہے ہیں، جب ملک میں ساڑھے پانچ لاکھ ٹن چینی موجود ہے۔
ان کے مطابق اس وقت ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے پاس تقریبا چار لاکھ ٹن، شوگر ملوں کے پاس ایک لاکھ ٹن اور شوگر ڈیلروں کے پاس پچاس ہزار ٹن چینی موجود ہے۔ یہ چینی ملک کی اگلے تین ماہ کی ضروریات کے لئے کافی ہے کیونکہ پاکستانی صارفین کی ایک ماہ کی چینی کی زیادہ سے زیادہ ضروریات ڈیڑھ لاکھ ٹن بنتی ہیں۔
اقتصادی تجزیہ نگار منصور احمد کہتے ہیں کہ بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود حکومت کی طرف سے بر وقت چینی درآمد نہ کئے جانے، TCP کی طرف سے چینی کے ذخائر ریلیز نہ کئے جانے اور ناجائز منافع خوری کے خواہشمند شوگر مل مالکان اور شوگر ڈیلروں کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران جاری ہے۔
ابراہیم مغل کے مطابق شوگر ملوں کی طرف سے کرشنگ سیزن کے آغاز میں دانستہ تاخیر سے نہ صرف صارفین مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ گندم کے کاشتکاروں کو بھی شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے مطابق حکومت گنے کا کرشنگ سیزن شروع کروا کے سپلائی اور ڈیمانڈ کی صورت حال بہتر بناتے ہوئے فوری طور پر چینی کا یہ بحران ختم کر سکتی ہے۔
پاکستان میں چینی کے زیادہ تر کارخانے بااثر لوگوں اور سیاستدانوں کی ملکیت ہیں۔ ان میں پاکستانی صدر آصف زرداری سے لے کر شریف برادران تک کئی سیاستدان بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ شوگر مل مافیا حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر صارفین کے لئے مشکلات پیدا کرتا رہتا ہے۔ لاہور شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر اصغر بٹ کے مطابق اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج تک چینی کی درآمد میں تاخیر کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف کبھی کوئی مؤثر کارروائی نہیں ہو سکی۔
ادھر پاکستان کے وفاقی وزیر خوراک و زراعت نذر محمد گوندل نے عوام کو پریشان کر دینے والے چینی کے بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’چینی کا استعمال ایک عیاشی ہے۔ اس لئے عوام کو چاہئے کہ اس کا استعمال ترک کر دیں۔‘‘
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں