پاکستان میں HIV سے ایک لاکھ کے قریب افراد متاثر، اقوام متحدہ
1 دسمبر 2010پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان شاہد کے مطابق پاکستان کی عام آبادی میں یہ بیماری بہت کم یعنی اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن بعض طبقوں میں ہائی رسک گروپس ضرور موجود ہیں جیسا کہ خواتین جنسی کارکنوں، ہیجڑوں اور سرنج کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد میں یہ بیماری بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایڈز کی روک تھام کے لیے ملنے والی بیرونی امداد میں بھی کافی کمی ہو چکی ہے اور اب ایسے اداروں کی زیادہ توجہ سیلاب زدہ علاقوں کی طرف ہو گئی ہے۔
ڈاکٹر سلمان شاہد کے مطابق پاکستان ایڈز کے حوالے سے اقوام متحدہ کے میلینیم گولز کا حدف تو پورا نہیں کر پایا لیکن اس مرض کی روک تھام کے لیے بھر پور کوششیں جاری ہیں اورایڈز کےحوالے سے مفت مشاورت،اس بیماری کی تشخیص اور علاج کے لیے مراکز بھی کھولے جا چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں اصل مسئلہ معاشرتی مسائل کی وجہ سے منظر عام پر نہ آنے والے ایڈز کے مریضوں کو سامنے لانا ہے۔
ایڈز کے حوالے سے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایڈز کے ایک اہلکار ڈاکٹر ناصر سرفراز نے بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں ساڑھے تین کروڑ لوگ ایڈز کا شکار ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگ افریقی اور ترقی پذیر ملکوں میں رہتےہیں۔ ان کے مطابق سال 2009ء میں 26 لاکھ نئے مریض دنیا بھر میں سامنے آئے تھے اور اس مرض کی وجہ سے 18 لاکھ اموات ہوئی تھیں۔ ان کے بقول اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے اور دنیا کے 56 ملکوں میں ایڈز کو بڑھنے سے روکا جا چکا ہے۔
یونیسف کی ایک اہلکار ڈاکٹر ماہا طلعت نے بتایا کہ ایڈز سے متاثرہ خواتین کے بچوں میں اس وائرس کی منتقلی کے چالیس فی صد امکانات ہوتے ہیں تاہم حمل، زچگی،پیدائش اور دودھ پلانے کے موقعوں پر ادویات کے استعمال سے وائرس کی منتقلی کے امکانات پانچ فیصد سے بھی کم رہ جاتے ہیں۔
ایک ماہر ڈاکٹر غزالہ نے بتایا کہ اس سال ایڈز کا عالمی دن انسانی حقوق کے حوالے سے منایا جا رہا ہے ان کے مطابق ہم سب کو چاہیے کہ ایڈز کے مریضوں کے حقوق کا خیال رکھیں ،ان سے متعصبانہ سلوک نہ کریں اور مریض کی بجائے صرف مرض کو بُرا جانیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: افسراعوان