’پاکستان ناؤ: پاکستان ایک جرمن فوٹوگرافر کی نظر سے
’’پاکستان کے عِشق میں گرفتار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا‘‘، جرمن فوٹو گرافر مانولو ٹے۔
’’پاکستان ناؤ‘‘ کے لیے 277 تصویروں کا انتخاب
جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹے تین سال قبل پاکستان چھ ہفتے کے مختصر دورے پر گئے تھے۔ مانولوٹے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ثقافت اور ورثہ سے بہت متاثر ہوئے۔ دستاویزی کتاب ’’پاکستان ناؤ‘‘ کے لیے مانولوٹے نے 277 تصویروں کا انتخاب تقریباﹰ 15000 تصویروں کے مجموعے میں سے کیا ہے۔
کراچی میں ساحلِ سمندر لوگوں کا پسندیدہ تفریحی مقام
ساحلِ سمندر کے نظاروں کے ساتھ، وہاں لگے ٹھیلوں پر چٹ پٹے سنیکس سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی یہ اچھی جگہ ہے۔ شہرِ کراچی پاکستان کا آبادی اور رقبے کے اعتبار سے سب بڑا شہر ہے۔ عموماﹰَ موسمِ گرما میں جب درجہ حرارت 45 ڈگری تک پہنچتا ہے تو شہرِ کراچی کی عوام اکثر ویک اینڈ پر سمندر کے ٹھنڈے پانی کی لہروں کے قریب بیٹھ کر آرام کرتے ہیں۔
ایک صحافی کومل قریشی کی روایتی انداز میں سجے اونٹ پر سواری
مانولو ٹے کے مطابق اکثر مغربی اور جرمن ذرائع ابلاغ میں پاکستانی خواتین کو تشدد کا نشانہ یا پھر مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں مانولوٹے جرمن عوام کو اس تصویر کے ذریعے پاکستانی خواتین کے مثبت پہلو سے متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ کومل کی طرح بیشتر نوجوان تعلیم یافتہ پاکستانی خواتین اپنے مستقبل کے بارے میں پر اعتماد ہیں اور وہ سماجی مسائل کے اصلاح کے لیے حکمرانوں سے سوال بھی کرتی ہیں۔
روایتی پاکستانی شادی
جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹے نے پاکستانی شادی کے جشن کو ایک طویل تہوار سے مشابہت دی ہے۔ اپنی کتاب میں مانولوٹے نے لکھا ہے کہ پاکستان میں شادی کے جشن کا اختتام ولیمہ یعنی گرینڈ ڈنر سے ہوتا ہے۔ کثیر تعداد میں دوستوں اور رشتہ داروں کو ولیمہ کا دعوت نامہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ثقافتی طور پر شادی نہ صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ایک بندھن ہے بلکہ ان کے خاندانوں کے درمیان بھی رشتہ داری کا سبب بنتا ہے۔
مکلی کے قبرستان کا ایک نظارہ
10 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پانچ لاکھ قبروں اور مقبروں کے ساتھ، مکلی کا قبرستان دنیا کے سب سے بڑے قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ 1981ء میں عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر نامزد کیے جا نے کے باوجود مقبروں اور قبروں کے تحفظ اور بحالی کی اشد ضرورت آج بھی ہے۔ مکلی پہاڑی پر چودہ اور اٹھارویں صدی کے درمیانی دور کے سندھ کی تاریخ و تہذیب کے مثالیں موجود ہیں۔
بحری جہاز توڑنے کا دنیا کا تیسرا بڑا مرکز ’گڈانی‘
صوبہ بلوچستان کا ساحلی گاؤں ’گڈانی‘ بحری جہاز توڑنے کا دنیا کا تیسرا بڑا مرکز ہے۔ بحری جہازوں کو توڑنے کے بعد مزدور اسکریپ میٹل کو ہاتھوں سے اٹھا کر کنارے پر لاتے ہیں۔ ایک جہاز کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔
روایتی پاکستانی ٹرک اور کپاس کی نقل وحمل
روایتی پاکستانی ٹرک آرٹ سے سجے ٹرک کو کپاس کے ذرائع آمد و رفت کے لیے زیادہ سے زیادہ بھرا جاتا ہے۔ کپاس کی لوڈنگ کے دوران ٹرک کے دونوں اطراف پر یکساں وزن تقسیم کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ہائی وے کے دو لین پر ٹرک پر لدی کپاس لٹکی ہوتی ہے۔ کپاس کے ریشے کو سوت، دھاگہ، کپڑا اور دیگر گارمنٹس کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ بیج سے کھانے پکانے کا تیل بھی تیار کیا جا تا ہے۔
پاکستانی اقلیتوں کی عکاسی
مانولو ٹے نے اس کتاب میں پاکستان کی اقلیتوں کی زندگی کو بھی نمایاں طور پر دکھایا ہے۔ اس تصویر میں سکھر کے قریب دریائے سندھ کے ایک جزیرے ’’سادھ بیلو‘‘ کے قدیم مندر میں جانے سے قبل ہندو خواتین رنگا رنگ لباس میں ملبوس ہیں۔ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع شہر سکھر میں بسنے والے ہندو خاندان کی مہمان نوازی سے مانولوٹے بے حد متاثر تھے۔
کشتی ایک روایتی کھیل
ایک روایتی کھیل کے طور پر، کشتی پاکستان کے دیہی علاقوں میں لڑی جاتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں اس روایتی کھیل کو کُشتی کہا جاتا ہے جب کہ صوبہ سندھ میں یہ ’’ملاکھڑے‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بعض دیہی علاقوں میں سالانہ میلوں کے دوران کشتی کے مقابلوں کو مرکزی توجہ حاصل ہوتی ہے۔ کشتی میں طاقتور مرد پہلوان میدان پر ایک دوسرے کےمدِ مقابل ہوتے ہیں۔
فیصل مسجد کے پیش امام سے ملاقات
مانولوٹے نے شرکاء کو خصوصاﹰ اسلام آباد کی مشہور شاہ فیصل مسجد کے پیش امام سے ملاقات کے بارے میں بتایا۔ مانولو کا کہنا تھا کہ مکالمے کے دوران پیش امام صاحب نے جب ان کے عقیدے کے بارے میں سوال کیا تو وہ سمجھے کہ اب امام صاحب ان کو دینِ اسلام کا درس دیں گے۔ لیکن حقیقتاﹰ اس کے برعکس ہوا۔ امام صاحب نے مانولوٹے کے ذاتی عقیدے کا احترام کرتے ہوئے بین المذہب ہم آہنگی اور محبت کا پیغام دیا۔
صوفی ثقافت کی ایک جھلک
’’پاکستان ناؤ‘‘ کتاب میں جرمن فوٹوگرافر مانولو ٹے نے پاکستان کی صوفی ثقافت کی جھلکیاں بھی پیش کی ہیں۔ لاہور میں ہر جمعرات کو بابا شاہ جمال کے مزار پر ان کے مریدوں کی جانب سے بذریعہ دھمال انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ درگاہ پر صوفی موسیقی سننے کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ صوفی ملنگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کے ساتھ روحانی انداز سے خدا کے لیے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں پاکستان کے عام لوگوں کی معمول کی زندگی کے سادگی بھرے لمحات پر مبنی تصاویری کتاب ’’پاکستان ناؤ‘‘ کی رونمائی کی تقریب منعقد کی گئی۔ پاکستان ناؤ کے مصنف اور فوٹوگرافر مانولو ٹے پاکستان کی وسیع ثقافت، دلکش نظارے اور مذہبی تنوع کے مداح بن چکے ہیں۔