پاکستان نے 332 افراد کو تختہء دار پر لٹکایا، رپورٹ
16 جنوری 2016جمعے کے روز پاکستان کی وزارت برائے داخلہ امور اور انسداد منشیات نے پہلی مرتبہ پارلیمان نے تحریری بیان جمع کروایا ہے، جس کے تحت ابھی تک تین سو بتیس مجرمان کو پھانسی دی گئی ہے۔ دسمبر 2014 میں پشاور میں ایک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد اسلام آباد حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کرتے ہوئے سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد پابندی ختم کردی تھی۔ شروع میں صرف ان مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا گیا، جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے لیکن بعد ازاں دیگر جرائم میں ملوث افراد کو ملنے والی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا تھا۔
تاہم مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ان پاکستانی اقدامات کو ہدف تنقید بھی بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا نظامِ عدل انتہائی پیچیدہ ہے اور نا انصافی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق اقرار جرم کے لیے پولیس کی طرف سے ملزمان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے اور تفتیش کا عمل بھی ناقص ہوتا ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف خاتون وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا، ’’حکومت چھوٹے درجے کے مجرموں کو تو پھانسیاں دے رہی ہیں جب کہ بڑے بڑے دہشت گرد ابھی تک بیٹھے اپنی سزا کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ عاصمہ جہانگیر کے مطابق نیشنل ایکشن پلان صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے، ’’اگر اس کا نفاذ یکساں طور پر کیا جاتا ہے لیکن یہاں یا تو عمل ہی نہیں ہو رہا اور اگر ہوتا ہے تو وہ بھی غیر مساوی۔‘‘
سزائے موت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ مجرموں کو پھانسی پر لٹکا دینا ہی وہ سب سے مؤثر طریقہ ہے، جس کے ذریعے ملک میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جمعے کے روز جمع کروائی جانے والی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 172 مدرسوں کو عسکری تنظیموں کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام کے تحت بند کیا جا چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسندی سے منسلک درجنوں ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ تقریباﹰ 70 ایسی دکانوں کو بھی بند کر دیا گیا ہے، جہاں پر نفرت انگیز مواد فروخت کیا جاتا تھا۔
دریں اثناء ہزاروں ایسے مذہبی افراد کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے، جن کی تقریریں فرقہ واریت اور نفرت انگیزی پر مبنی تھیں۔