پاکستان، ٹیسٹنگ میں اضافہ کیوں نہیں ہورہا؟
29 اپریل 2020وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی کوشش تھی کہ اپریل کے آخر تک ملک میں روزانہ بیس ہزار ٹیسٹ ہونا شروع ہوجائیں۔ لیکن نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق، پچھلے ہفتے کے دوران سندھ میں یومیہ تین ہزار ٹیسٹ، پنجاب میں دو ہزار، خیبرپختونخوا میں ایک ہزار اور بلوچستان میں تین سے چار سو ٹیسٹ ہوسکے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اس شک کا اظہار کیا ہے کہ کہیں وفاقی حکومت حالات میں مصنوعی بہتری دکھانے کی خاطر ٹیسٹنگ سے گریز تو نہیں کررہی۔
صحت کے امور وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا مانتے ہیں کہ ملک میں ٹیسٹنگ کے رجحان میں کچھ کمی آئی ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اس کی یہ وجہ نہیں کہ حکومت جان بوجھ کر کیسز کی تعداد کم دکھانا چاہتی ہے۔
ایک مقامی چینل پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ ملک میں دراصل ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، "پندرہ مارچ کو ملک میں چار سو بہتر ٹیسٹ کیے گئے تھے، آج ہم روزانہ سات ہزار ٹیسٹ کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ ملک میں آج بھی پندرہ ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اتنے ٹیسٹ نہیں ہو پارہے جتنے ہونے چاہییں۔
حکام کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت "ٹیسٹنگ، ٹریسنگ اور قرنطینہ" سے متعلق ایک نئی حکمت عملی وضع کرنے جارہی ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق، "ہمارا خیال ہے کہ ہفتے دس دن میں ٹیسٹنگ کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو جائے گا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں اس وقت بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں کی نسبت پاکستان میں آبادی کے تناسب سے آج بھی سب سے زیادہ ٹیسٹنگ ہو رہی ہے۔
بدھ کی دوپہر تک پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد پندرہ ہزار سے تجاوز کر گئے جبکہ مرنے والوں کی تعداد تین سو پچیس تک بتائی جا رہی ہے۔
ماہرین کے نزدیک وبا کے خطرات کا اندازہ لگانے کے لیے اموات کی تعداد ٹیسٹنگ کے اعدادوشمار سے زیادہ قابل اعتبار سمجھی جاتی ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکام کے مطابق پچھلے دو ہفتوں میں اوسط یومیہ اموات کے رجحان میں کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی اور یہ تعداد پندرہ سے سترہ کے درمیان رہی ہے۔ حکام کا خیال ہے کہ اگر یہ رجحان مزید ایک ہفتہ یا دس روز جاری رہتا ہے تو شاید یہ کہا جا سکے گا کہ حالات مزید خراب نہیں ہو رہے۔
ش ج/ ک م