پاکستان کا سیاسی بحران جاری، وزیر قانون مستعفی
17 جنوری 2012حکومت نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے لائسنس کی منسوخی کے بعد بابر اعوان کو دوبارہ وفاقی کابینہ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر قانون مولا بخش چانڈیو نے منگل کے روز صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ سینیٹر بابر اعوان کو جو پہلے بھی اس حکومت میں وزیر قانون کے عہدے پر رہے ہیں انہیں دوبارہ اس وزارت کا چارج دیا جائے گا۔ بابر اعوان کا لائسنس ایک ایسے وقت میں معّطل کیا گیا، جب وہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکے مقدمے کے از سر نو جائزے سے متعلق سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی پیروی کر رہے تھے۔
بابراعوان نے یکم دسمبر 2011ء کو سپریم کورٹ کی جانب سے میمو کیس میں عبوری فیصلے کو پریس کانفرنس کے ذریعے مبینہ تضحیک کا نشانہ بنایا تھا جس پر بابر اعوان کو توہین عدالت کی کارروائی کے سلسلے میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا گیا جس پر 5 جنوری کو بابر اعوان نے ذرائع ابلاغ پر ایک شعر ‘‘نوٹس ملیا، ککھ نہ ہلیا ۔ کیوں سوہنیا دا گلہ کراں ، میں لکھ واری بسم اللہ کراں ’’ پڑھ کر تبصرہ کیا تھا جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں گیارہ رکنی بینچ نے سخت نوٹس لیا اور انہیں جواب داخل کرانے کے لیے 16 جنوری کی مہلت دی تھی۔ تاہم بابر اعوان نے وکیل کے ذریعے توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے انہیں مہلت تو دے دی لیکن عارضی طور پر ان کا لائسنس معّطل کر دیا۔ عدالت نے حکومت کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ بھٹو ریفرنس کے لیے کسی اور وکیل کو مقرر کر لے۔
فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے کہا کہ بابر اعوان کو سنے بغیر سزا دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ’’ نہ بابر اعوان پیچھے ہٹے گا نا سید یوسف رضا گیلانی پیچھے ہٹیں گے۔ پوری قوم آصف علی زرداری کے ساتھ ہے پیپلز پارٹی نہ پہلے کبھی ڈری اور گھبرائی ہے اور نہ اب ڈرے گی اور گھبرائے گی‘‘۔
دوسری جانب وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین لطیف آفریدی نے عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا’’ اگر بابر اعوان کا رویہ ایسا نہ ہوتا اور وہ وقت پر وکیل کر لیتے اور جواب داخل کراتے تو ان کے لائسنس کی معّطلی کی نوبت نہ آتی۔ البتہ جہاں تک ان کی تعلیمی اسناد کا تعلق ہے تو ہم اپنا ریکارڈ ڈھونڈیں گے اور سپریم کورٹ کا جو ان کا لائسنس ہے ہمارے پاس جو بھی ریکارڈ ہے وہ ہم سپریم کورٹ کو بھجوائیں گے‘‘۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اداروں کو تصادم سے گریز کرنا چاہیے اور سپریم کورٹ کو چاہیے تھا کہ وہ بابر اعوان کی لائسنس معّطل نہ کرتی بلکہ یہ کام پاکستان بار کونسل کے سپریم کونسل کے سپرد کیا جانا چاہیے تھا انہوں نے کہا ’’ اب یہ معاملہ اس نہج پر آ گیا ہے کہ اگر ہمارے سارے اداروں کو بالغ نظری سے کام لینا چاہیے سب کو قوم کی خاطر تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سب کو سوچنا چاہیے کہ کس حد تک جانا چاہیے۔ ہر ادارے کو ایک قدم پیچھے لینا چاہیے اور یہ امید چھوڑ دیں کہ کوئی بھی ادارہ دوسرے ادارے بلوا کرے گا‘‘۔
دریں اثناء وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ کی جانب سے دیئے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس کی پیروی معروف وکیل اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کریں گے۔ جبکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 19جنوری کو عدالت کے سامنے پیش ہونگے۔
رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت : عدنان اسحاق