وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف گھمانا ممکن نہیں اور پاکستان کے پاس اب کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں۔ مغربی ممالک کے تھنک ٹینک سن دو ہزار پانچ، دو ہزار چھ میں ہی نئے ورلڈ آرڈر کے نقشے کھینچ رہے تھے۔
اس نقشے میں دو ممالک سب سے اہم تھے، ایک چین اور دوسرا بھارت۔ سن دو ہزار سات میں جرمن دارالحکومت برلن میں ایک تھنک ٹینک کی بریفنگ تھی، زمانہ طالب علمی تھا اور میں بھی اس میں شریک ہوا۔ اس بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارت کی آبادی اور جسامت اس کی طاقت ہیں۔ بھارت اب صرف یوگا اور روحانیت کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ معاشی حوالے سے بھی باعث کشش ہے۔ کمیونزم کی مخالفت کی وجہ سے مغربی ممالک کا فطری جھکاؤ بھارت کے ساتھ بنتا ہے لیکن چین کے ساتھ بھی چلنا ہو گا اور مجبوری میں چلنا ہو گا کیوں کہ چین کی مارکیٹ بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
تقریباﹰ سن دو ہزار تک مغربی ممالک کی پالیسی یہی تھی کہ خطے میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ دونوں ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے، ایک دوسرے کے حریف بھی تھے اور پھر دونوں کے مسائل بھی یکساں تھے۔ جرمنی جیسے ممالک نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تقریباﹰ ایک جیسے امدادی پیکج ہی دونوں ملکوں کو دیے تھے۔ ہمیشہ خیال رکھا گیا کہ بھارت کے ساتھ جو بھی معاہدہ ہو، پاکستان اس سے ناراض نہ ہو یا پھر معاہدے طے کرنے کے عمل میں کسی حد تک پاکستان کو شامل رکھا گیا۔
لیکن جب چین کا معاملہ آیا تو مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اگر چین کا مقابلہ کرنا ہے، تو پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کرنا ہو گا۔ پاکستان چین کا بھی دوست تھا اور ہے جبکہ اس وقت افغانستان کی جنگ اور دہشت گردی کا بیانیہ دونوں ہی عروج پر تھے۔
ان دونوں معاملات نے مغربی ممالک کے اس بیانیے کی راہ ہموار کی کہ بھارت کو پاکستان سے الگ کرکے دیکھنا چاہیے لیکن ان تمام چیزوں پر جو مہر ثابت ہوئی، وہ امریکی بھارتی جوہری معاہدہ تھا۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا صف اول کا اتحادی تھا لیکن بداعتمادی عروج پر تھی۔
اوباما انتظامیہ سے جب پوچھا گیا کہ آپ پاکستان کو کیسے نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ یہ اہم اسٹریٹیجک معاہدہ کر سکتے ہیں؟ تو جواب میں کہا گیا کہ آپ خود ہی تو کہتے تھے کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ یکساں پالیسی میں نہ رکھیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز بیان تھا۔ پاکستان نے تو کہا تھا کہ اسے رعایتیں دی جائیں، افغانستان میں اس کے مفادات کا تحفظ کیا جائے، نہ کہ بھارتی مفادات کا۔ پھر بھی معاہدہ بھارت کے ساتھ کر کے پاکستان کو الگ کر دیا گیا تھا۔
سنگاپور کی ترقی اور پاکستان کی ناکامی کی تین وجوہات
اس کے بعد مغربی ممالک نے بھی یہی پالیسی اپنائی۔ بھارت شاید اس سے کہیں آگے ہوتا، جہاں آج کھڑا ہے لیکن نریندر مودی کی حکومت آئی اور اس کی سیاست ہی پاکستان کی مخالفت پر مبنی تھی۔ لہٰذا پاکستان پھر بھی کسی نہ کسی طرح اس 'گیم‘ کا حصہ ہی رہا۔
لیکن اب ایک حیرت انگیز تبدیلی آ چکی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کچھ عرصہ قبل امریکہ میں کہا تھا کہ پاکستان سے اب کوئی مقابلہ نہیں، اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دیں، وہ خود مر جائے گا۔ اس بیان پر پاکستان میں شدید احتجاج ہوا تھا لیکن یہ بیان بدلتی ہوئی بھارتی پالیسی کا غماز ہے۔
مغربی ممالک کے بعد اب بھارت میں بھی یہ ادراک پیدا ہو چکا ہے کہ مقابلہ چین سے ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس شعور میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ بھارت میں بین الاقوامی سرمایہ کاری آ رہی ہے، دنیا کی بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں وہاں قدم رکھ رہی ہیں، بھارت چاند پر کمند ڈال رہا ہے اور پاکستان میں بیٹھے لوگ بھی بھارت کو اس بات پر مبارک دے رہے ہیں۔
یعنی عوامی سطح پر بھی قبولیت آئی ہے کہ بھارت آگے نکل گیا ہے۔ جس بھارت کی جی ڈی پی سن دو ہزار میں تقریباﹰ 470 بلین ڈالر تھی، سن دو ہزار تیئیس میں وہی جی ڈی پی 3.74 ٹریلین ڈالر ہو چکی ہے۔
آج سے پانچ سال پہلے کی بات کریں تو پاکستانی وزارت خارجہ اور فوج کے بیانات اکثر بھارت مخالف ہوتے تھے جبکہ بھارت کی طرف سے جواب بھی آتا تھا۔
اب لیکن صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ پاکستانی فوج اور وزارت خارجہ کے بیانات اب افغانستان کے خلاف ہوتے ہیں اور جواب بھی ادھر سے ہی آتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ایک عرصے سے بھارت کے پاکستان مخالف بیانات میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ افغانستان کے ساتھ 'انگیج‘ رہیں گے نہ کہ بھارت کے ساتھ۔ یہ ہے وہ پالیسی کی تبدیلی، جو گزشتہ دس برسوں میں آئی اور جس کا پاکستانی پالیسی سازوں کو احساس بھی نہیں ہوا۔
جب بھارت کو چاند پر جانے کے لیے مبارکبادیں دی جا رہی تھیں، پاکستانی وزیر اعظم نے قوم کو یہ مبارکباد دی کہ تین ارب ڈالر کا قرض منظور ہو گیا ہے۔ یہ مبارکباد نہیں ایک نوحہ تھا۔
جنرل مرزا اسلم بیگ نے ایک مرتبہ بھارت کو مخاطب کرتے ہوئے ڈرایا تھا کہ جب افغان مجاہدین فارغ ہوں گے تو کہاں جائیں گے؟ کہیں نہ کہیں تو انہیں مصروفیت ڈھونڈنا ہو گی!
اب حالات بدل چکے ہیں، بھارت کے ساتھ کشمیر کے حوالے سے خفیہ معاملات کافی حد تک طے پا چکے ہیں۔ بھارت کی طرف سے 'پاکستان کو دہشت گردی سے جوڑنے‘ والے بیانیے نے پاکستان کو خوف زدہ کیا ہے اور پاکستان اس حوالے سے اپنی پالیسی بھی واضح طور پر تبدیل کر چکا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جیسا جنرل مرزا اسلم بیگ نے کہا تھا کہ طالبان پھر کدھر جائیں گے؟
جب روس کا مقابلہ کرنا تھا، تو امریکی صدر جمی کارٹر کے سلامتی کے مشیر بریزنسکی نے انقلاب ایران کو دیکھتے ہوئےکہا تھا کہ مذہب ایک طاقت ہے اور اسی طاقت کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ان کی تھیوری ''آرک آف کرائسس‘‘ بھی اسی بنیاد پر تھی کہ امریکہ سیاسی اسلام کی حمایت کرتے ہوئے سوویت یونین اور عرب قوم پسند تحریکوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس تھیوری اور پالیسی کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ بنیاد پرستانہ اسلام اور اینٹی کمیونسٹ فورسز کو پرموٹ کیا جائے گا۔
تو پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں شدت پسندی اور مذہب کی طاقت اب بھی موجود ہے اور اسے کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ ان علاقوں میں قانون کی گرفت کمزور ہے اور اس خلا کو پُر کرتے ہوئے وہاں کئی طاقتیں اپنے قدم جما سکتی ہیں۔ سرحدی علاقوں میں آئے دن حملے ہو رہے ہیں اور پاکستانی طالبان کا یہ مسئلہ اسلام آباد کو مستقبل میں بھی 'انگیج‘ رکھے گا۔ افغانستان کی طرف یہ سرحدی علاقے افغان طالبان کے بھی مکمل کنٹرول میں نہیں لیکن اسلام آباد جواب دہ کابل حکومت کو ہی بنائے گی۔ پاکستان کے افغانستان مخالف بیانات میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اس طرح حالات کشیدہ تر ہو سکتے ہیں۔
افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرت بھی موجود ہے اور سرحدی علاقوں میں پاکستان مخالف طالبان اور اسلحہ بھی۔ پاکستان کو اس مسئلے سے جان چھڑاتے ہوئے بھی کئی سال لگیں گے اور تب تک بھارت مزید کئی ترقیاتی پروگرام شروع کر چکا ہو گا۔
پاکستان گزشتہ دس برسوں کے دوران بھارت کے ساتھ مثبت مقابلہ بازی کر سکتا تھا لیکن ترجیحات اور حالات نے اسے ایسا کرنے نہ دیا۔ پاکستان آج تک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، انتخابات کے باوجود ملکی سیاسیت غیریقینی کا شکار ہے۔ اب ماضی کی پالیسیوں کا خمیازہ بھگتنے کا وقت ہے۔ پاکستان کو جلد از جلد ان پرانے مسائل سے نمٹنا ہو گا، انہیں سمیٹنا ہو گا، ملک میں سیاسی استحکام لانا ہو گا اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا پاکستان بھارت سے کتنا پیچھے رہ گیا ہے؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔