پاکستان کو صرف فوج بچا سکتی ہے: مشرف
1 اکتوبر 2010مشرف 2008ء میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہروں کے بعد اقتدار سے دستبردار ہو گئے تھے اور تب سے برطانوی دارالحکومت میں قیام پذیر ہیں۔ اب وہ ’آل پاکستان مسلم لیگ‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرتے ہوئے 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے پاکستان واپسی کے لئے اپنی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے مشرف کے ایک برطانوی نشریاتی ادارے کو دئے گئے اُس انٹرویو کا حوالہ دیا ہے، جس میں اِس 67 سالہ سابق پاکستانی جرنیل نے کہا ہے کہ پاکستانی عوام میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ مشرف کے مطابق ملک ایک ایسے بحران کی زَد میں ہے، جو دہشت گردی کے خطرے اور ایک غیر فعال حکومت کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔
دوسری طرف مشرف کو وطن واپسی کی صورت میں اکتوبر 1999ء میں ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں عدالتی تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اِسی فوجی بغاوت کی صورت میں وہ ملک کے حکمران بنے اور اگلے نو سال تک برسرِ اقتدار رہے۔ 2007ء کے اواخر میں اُنہوں نے اپنے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی احتجاجی مظاہروں کے پیشِ نظر ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی۔
بی بی سی ریڈیو کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے مشرف نے کہا:’’مَیں ایک مخصو ص ماحول تشکیل دینے کے عمل سے گزر رہا ہوں، مَیں سیاسی طور پر جتنا مضبوط ہوں گا، اُتنی ہی زیادہ یہ بات میرے لئے وطن واپس جانے اور خود کو بچانے کی بنیاد بنے گی۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ وطن واپسی پر اُنہیں غداری کے الزامات کا تو کوئی خطرہ نہیں ہے البتہ کچھ ’دیگر خطرات‘ ضرور موجود ہیں، جن میں مسلمان انتہا پسندوں کی جانب سے قاتلانہ حملوں کا بھی خطرہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ جب مشرف اقتدار میں تھے، اُنہیں انتہا پسندوں نے دو مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی۔ مشرف نے کہا:’’مَیں خطرہ مول لوں گا لیکن درست وقت پر لوں گا۔‘‘ مشرف نے قطعی طور پر یہ نہیں بتایا کہ وہ کب وطن لوٹیں گے لیکن اُنہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ ’2013ء تک انتظار نہیں کریں گے‘۔
مشرف نے مزید کہا:’’ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ پاکستان ٹوٹے۔ کوئی بھی پاکستانی ایسا نہیں ہونے دے گا، کوئی بھی پاکستانی ایسا نہیں چاہتا۔ تو نجات دہندہ کون ہے؟ فوج یہ کام کر سکتی ہے۔ کیا کوئی اور یہ کام کر سکتا ہے؟ نہیں، اور کوئی بھی یہ کام نہیں کر سکتا چنانچہ فوج کو شریک کیا جانا پڑے گا۔‘‘
رپورٹ: امجد علی/ خبر رساں ادارے
ادارت: افسر اعوان