1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی نوجوان نسل، سوشل میڈیا اور ففتھ جنریشن وار

22 نومبر 2023

ففتھ جنریشن وار کے ہتھیار مہلک نہیں لیکن تباہ کن ضرور ہیں۔ اس کے اہم ہتھیاروں میں بے بنیاد پروپیگنڈہ، میڈیا لٹریسی کا ناجائز فائدہ اور تعمیری سوچ کو جھوٹی انفارمیشن سے تباہ کرنا شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Z37K
DW Urdu Blogerin Arifa Rana
تصویر: privat

ترقی پذیر ممالک کے رہنماؤں کو ففتھ جنریشن وار کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا سامنا نہ کرنے کی صورت میں ترقی پذیر ممالک کی دنیا میں زندہ رہنے کی صلاحیت خطرے میں پڑ سکتی ہے اگر وہ اس جنگ کی شدت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ ترقی پذیر اقوام کے لیے ففتھ جنریشن وار کو شکست دینے کے لیے حکمت عملی ترتب دینی چاہیے۔ فوری طور پر کارروائی کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں ان کے سماجی، اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کو زنگ لگ جائے گا، جس سے یہ ممالک تباہی کے خطرے سے دوچار ہوں گے۔

پچھلی صدی میں بہت سی عملی اور تکنتکی ترقی ہوئی ۔ اسی دوران دنیا میں گزرنے والے حالات کے مختلف ماڈل بنائے گئے۔ جس میں جنگوں کے ماڈلز کو "وار فئیر ماڈل " کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1648 میں اس اصطلاح کو استعمال کیا گیا اور اس کی بنیاد پر امن معاہدہ Treaty of Westphalia کیا گیا۔ یہ جنگ جرمنی اور دیگر ممالک کے درمیان تھی۔ یہ جنگ فرسٹ جنریشن وار کہلاتی ہے جس میں قریباً 80 لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔ اسی طرح سیکنڈ جنریشن وار کی اصطلاح 1989 کے بعد استعمال کی گئی جب ہتھیار کسی حد تک جدید اور خطرناک ہو چکے تھے۔ تھرڈ جنریشن وار میں دشمن کو سامنے سے وار کی بجائے پیچھے سے وار کرنے پر زیادہ فوکس کیا گیا۔ فورتھ جنریشن وار میں لڑی جانے والی جنگوں میں جنگ اور سیاست کو ملا دیا گیا اور سیاست کا خاکہ بدل دیا گیا۔

آج کل جو جنگ کا طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے اسے ففتھ جنریشن وار کہا جاتا ہے۔ یہ جنگ ان کوششوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے ایک قوم دوسری قوم کو اپنے مطلوبہ سانچے میں ڈھال سکے۔ پاکستان اس وقت ففتھ جنریشن وار کا شکار ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ابھی بہت کچھ واضح ہے سب کچھ دھندلایا نہیں ہے۔ لیکن حقیقتاً اس میں اس قسم کی ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ابہامات اور شکوک شبہات کے سیلاب کی وجہ سے تمام منظر دھندلا جاتا ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو دیکھیں تو اس پر موجود مواد تسکین کی بجائے تشکیک کا سبب بنتا ہے۔ یعنی سوشل میڈیا اس جنگ کا اہم ترین ہتھیار ہے۔ جس میں طرح طرح کی وڈیوز، تصاویر، پوسٹس، اسٹیٹس اور تحریریں وغیرہ کے ذریعے لوگوں کو بہکایا جاتا ہے، نتیجتاً قوم کی حیثیت اور مقام داؤ پر لگ جاتا ہے۔ ہم نے اس کی  جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے کوئی حد بندی نہیں کی ہے جیسا کہ ایران، چین، ترکی اور ملایشیا میں کیا گیا ہے۔

اب سسکتھ جنریشن وار جو کہ روائتی طریقہ سے ہٹ کر ہے اس میں ٹیکنالوجی اور مختلف اتحاد سامنے آ رہے ہیں۔ جس سے اکثر قوموں کو تباہ کرنے کے مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں۔ مگر ہم ابھی ففتھ جنریشن وار سے نمٹنے کی حکمت عملی ہی طے نہیں کر پا رہے۔ اس کا ٹارگٹ زیادہ تر نوجوان نسل ہے۔

یہ جنگ میڈیا کی ہے اس میں میڈیا کااستعمال بہت احتیاط سے کرنا پڑے گا۔ میڈیا کا میدان بہت وسیع ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا نوجوانوں کو اس کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے سینسر پالیسی سخت کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ تحقیق کی عادت کو پروان چڑھانا پڑے گا تاکہ کسی بھی غلط خبر یا کسی بھی غلط مفروضے کی صورت میں اس پر اعتبار نہ کیا جائے۔  اس  کے علاوہ ان کی تجزیہ کی عادت کو بھی نکھار کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ عادت بہترین مدد گار ہوتی ہے کہ سنی سنائی باتوں پر عمل کی بجائے ان پر تحقیق کی جائے۔ ان باتوں پر عمل وہی کرتا ہے جو با صلاحیت ، جرات مند اور تحقیق کی عادت نہ رکھنےوالا ہو۔ تعلیم اور آگہی اس کے مخالف ہتھیار مانے جاتے ہیں۔

جنگ کے اس ماحول میں نوجوان کا اپنی حکمت و فراست سے کام لینا بھی ازحد ضروری ہے، تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ کون سے ایسے عوامل اور امور ہیں جو ہمارے لیے، ہماری قوم کے لیے مفید ہیں تاکہ انہیں اپنایا جائے۔ اور کون سی ایسی چیزی ہیں جو محض بناوٹی اور جعلی ہیں تاکہ ان کی نشان دہی کرکے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور قوم میں شعور اجاگر کیا جائے۔

اس ضمن میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا یا میڈیا استمال کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔ کیونکہ آپ کا شئیر کیا ہوا مواد ان گروپس کی توجہ کا مرکز بنتا ہے جو مذہبی طور سے یا سیاسی طور سے آپ کے میلان کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کوغیر محسوس طریقے سے ایسی تنظیموں کا حصہ بنا لیتے ہیں جو انتشار پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔