پاکستان کی نگراں حکومت کو درپیش چیلنجز
5 جون 2018آج منگل پانچ جون کو پاکستان کی نگران وفاقی کابینہ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا قلمدان معروف معیشت دان اور مالیاتی امور کی ماہر ڈاکڑ شمشاد اختر کو دیا گیا ہے، جواسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون گورنر رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی عالمی مالیاتی اداروں میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔
وزارتِ خارجہ کا اہم قلمدان عبداللہ حسین ہارون کے پاس آیا ہے،جو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مندوب کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا تعلق کراچی کے ایک کاروباری گھرانے سے ہے۔
سید علی ظفر شاہ معروف قانون دان ہیں۔ انہیں وزیرِ انصاف وقانون بنایا گیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کا قلمدان کے پی کے سے تعلق رکھنے والے اعظم خان کے حصے میں آیا ہے جب کہ وزارتِ تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کا قلمدان سندھ سے تعلق رکھنے والے شیخ محمد یوسف کے حصے میں آیا ہے۔
وزارتِ انسانی حقوق کا قرعہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی روشن خورشید بروچہ کے نام نکلا ہے۔ کیونکہ وفاقی وزارتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وزیر کم ہیں، اس لیے ایک وزیر بیک وقت کئی وزراتوں کے نگران کے طور پر کام کرے گا۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں کا بوجھ، گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور سر اٹھاتا ہوا توانائی کا بحران ان چند چیلنجوں میں سے ہیں، جن کا سامنا نگراں حکومت کو کرنا پڑے گا۔ لیکن سیاست دانوں کے خیال میں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔
سابق وزیرِ اعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے خیال میں بلوچستان میں حالیہ سیاسی صف بندیوں کی وجہ سے انتخابات کے حوالے سے لوگوں کے ذہن میں سوالات ابھر رہے ہیں: ’’میرے خیال میں ان سیاسی صف بندیوں کے پیشِ نظر نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کاندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شفاف الیکشن کرائیں اور بلوچستان میں ایسا کرنے کے لیے امن و امان کے قیام کو بھی یقینی بنانا پڑے گا۔ ماضی میں آواران اور مکران میں سیاست دانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ شورش زدہ علاقے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ نگراں حکومت اور ای سی پی اپنی ساری توانائیاں شفاف انتخابات کے انعقاد پر لگائیں گی۔ میرے خیال میں ان کے لیے یہ ہی سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔‘‘
ملک میں گزشتہ ایک ہفتے سے توانائی کا بحران پھر سر اٹھا رہا ہے۔ کئی علاقوں میں اب باقاعدہ لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بڑھنے کی وجہ سے نگراں حکومت کو بھی اجلاس بلانا پڑا۔ نون لیگ کا خیال ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا دوبارہ سے آنا نگراں حکومت کی نا اہلی ہے۔
نون لیگ کے رہنما اور سابق ترجمان پنجاب حکومت زعیم قادری نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں لوڈشیڈنگ سے بھی بڑا چیلنج شفاف انتخابات کا انعقاد ہے کیونکہ اس حکومت کا بنیادی فرض ہی انتخابات کرانا ہے۔ اگر انتخابات شفاف نہ ہوئے ، تو ہم اس کا ذمہ دار نگراں حکومت کو گردانیں گے۔ لہٰذا نگراں حکومت شفاف انتخابات کو یقینی بنائے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں آزادانہ انداز میں ان انتخابات میں حصہ لیں سکیں۔‘‘
سیاسی موشگافیوں سے دور معیشت دان اس بات پر فکر مند ہیں کہ نگراں حکومت ملک کے معاشی پہیے کو کس طرح چلائے گی کیونکہ انتخابات ہوں یا کوئی اور کاروبارِ حکومت کوئی چیز بھی پیسے کے بغیر نہیں چلتی۔
مالیاتی امور کے ماہر ڈاکڑ اشفاق حسن کے خیال میں نگراں حکومت کے سامنے بہت بڑے معاشی چیلنجز ہیں، جن سے نمٹنا ان کے لیے آسان نہیں ہوگا: ’’آپ کا تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہور ہے ہیں۔ آپ کو قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔ وزراتِ خزانہ کے جو حکام کل تک چین کی بانسری بجا رہے تھے، آج وہ نگراں حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ معیشت کی جو صورتِ حال ہے، اس میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ جس سے آپ کی سیاسی خودمختاری متاثر ہوگی اور آپ آزادانہ فیصلے کر نہیں سکیں گے بلکہ فیصلے کہیں اور سے آئیں گے اور آپ ان پر صرف عملدآمد کرائیں گے۔‘‘