پاکستان کے لیے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا قرض منظور
13 جولائی 2023عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکج کو منظوری دے دی ہے۔ جوہری طاقت سے لیس جنوب ایشیائی ملک اور مالیاتی ادارے کے درمیان اس سلسلے میں پچھلے کئی ماہ سے بات چیت چل رہی تھی۔
یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب پاکستانی معیشت مشکل حالات سے گذر رہی ہے۔ تباہ کن سیلاب اور مبینہ غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے اسے بڑے مالی اور بیرونی خسارے سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور زرمبادلہ کے تیزی سے ختم ہوتے ہوئے ذخائر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستانی مرکزی بینک کے پاس درآمدات کی ادائیگی کے لیے صرف چند ماہ کے لیے ہی زرمبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے معاہدے میں کیا کہا گیا ہے؟
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیوبورڈ نے کہا کہ امداد کا مقصد "معیشت کو مستحکم کرنے کی فوری اقدامات کا تعاون کرنا اور مالی دھچکوں سے حفاظت کرنا ہے جب کہ پاکستانی عوام کی مدد کے لیے سماجی ترقیات پر خرچ کے لیے بھی مواقع تیار کیے جائیں گے۔"
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان قرض پروگرام پر معاہدہ ہو گیا
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ "پاکستانی معیشت اس وقت مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔ تباہ کن سیلاب اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسے بڑے مالی اور بیرونی خسارے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔"
آئی ایم ایف نے امداد کے لیے جون میں ابتدائی منظوری دے دی تھی لیکن اس کے تحت رقم کی پہلی قسط کے اجراء سے قبل اسے ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری درکار تھی۔
تین ارب ڈالر کے نرم قرضے: اسٹیٹ بینک اور قرض پالیسی زیر بحث
قرض کی پہلی قسط کے طورپر 1.2 ارب ڈالر کی رقم فوری طورپر جاری کردی جائے گی جب کہ بقیہ دو قسطیں سہ ماہی بنیادوں پر دو جائزوں کے بعد جاری کی جائیں گی۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرے، کرنسی کنٹرول ترک کردے، ٹیکس وصولی کو بہتر بنائے اور مالیاتی پالیسی کو سخت کرے۔ مرکزی بینک کو اپنی پالیسی سود کی شرح کو 22 فیصد کی بلند ترین سطح تک بڑھانا ہے اور حکومت کو نئے ٹیکسو ں کے ذریعہ 1.39ارب ڈالر جمع کرنے ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ وہ چاہتا ہے اسلام آبا د ساختی اصلاحات، بالخصوص توانائی کے شعبے اور سرکاری ملکیت والے اداروں اور موسمیاتی لچک میں مزید پیش رفت کرے۔
یہ بیل آوٹ پیکج دسمبر میں روک دیا گیا تھا، جب آئی ایم ایف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں سابقہ حکومت کے ساتھ سن 2019 میں ہونے والے معاہدے کی تکمیل نہ کرنے کی وجہ سے قرض کی منظورشدہ رقم میں سے 1.1 ارب ڈالر جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔
اپریل 2022 میں عدم اعتماد کی تحریک میں ناکام ہوجانے کی وجہ سے عمران خان کی حکومت گر گئی تھی۔
قرض پاکستان کومالی مسائل حل کرنے میں مددگار
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے تین ارب ڈالر کی منظوری کو معیشت کے استحکام کے لیے حکومت کی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔
شہباز شریف نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ یہ فوری سے درمیانی مدت کے معاشی چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی معاشی پوزیشن کو تقویت دیتا ہے، جس سے اگلی حکومت کو آگے بڑھنے کے لیے مالیاتی جگہ ملتی ہے۔"
انہوں نے مزید لکھا، "یہ سنگ میل جو سخت ترین مشکلات اور بظاہر ناممکن نظر آنے والی ڈیڈ لائن کے خلاف حاصل کیا گیا، ٹیم کی بہترین کوششوں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔"
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزارت خزانہ میں ان کی ٹیم کی محنت کو سراہا اور آئی ایم ایف کی ایم ڈی کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا۔
خیال رہے کہ شریف حکومت کو اس سال عام انتخابات کا سامنا ہے۔
سعودی عرب نے پاکستانی اسٹیٹ بینک میں دو بلین ڈالر جمع کرا دیے
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان یہ معاہدہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب چند دنوں کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کا قرض دیا ہے۔
پچھلے تین ماہ کے دوران چین نے بھی پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے دیے ہیں۔
معاشی کارکردگی کی رپورٹ جاری
آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی کارکردگی سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے، جس کے مطابق سال 2024-23 میں معاشی شرح نمو 2.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال پاکستان کی معاشی کارکردگی منفی 0.5 فیصد رہی جبکہ حکومت نے گزشتہ سال جی ڈی پی گروتھ 0.3 فیصد مثبت رہنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاکستان: تباہ کن سیلاب کے دوران آئی ایم ایف کا ایک ارب سے زائد کا قرضہ دینے کا اعلان
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2024 میں بے روزگاری ساڑھے 8 فیصد سے کم ہوکر 8 فیصد پر آجائے گی جبکہ اس سال اوسط مہنگائی 29.6 فیصد سے کم ہو کر 25.9 فیصد پر آنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ مالی خسارہ ساڑھے 7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)