پاکستان کے لیے امریکی امداد، ریپبلیکنز سختی کے خواہاں
21 جولائی 2011ہاؤس کی کمیٹی برائے امور خارجہ نے اکتوبر سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے اخراجات کے بِل میں متعدد نکات اٹھائے ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے لیے امریکی معاونت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ اسقاطِ حمل کے لیے فنڈنگ پر پابندیاں بھی شامل ہیں۔ اس کمیٹی پر ریپبلیکنز کا کنٹرول ہے۔
تاہم ان نکات کو قابل عمل بنانے کے لیے ریپبلیکن سینیٹروں کو سینیٹ میں اتفاق رائے تک پہنچنا ہو گا، جہاں صدر باراک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کا کنٹرول ہے جبکہ حکمران جماعت اپنی انتظامیہ کے بین الاقوامی منصوبوں کی حمایت بھی کرتی ہے۔
اخراجات کے اس بِل کے تحت مصر میں نئے حکمرانوں نے اخوان المسلمین کو خارج کرنے کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو مکمل طور پر نافذ نہ کیا تو قاہرہ حکومت کو گزشتہ کئی دہائیوں سے ملنے والی سکیورٹی امداد بھی بند ہو جائے گی۔
لبنان، فلسطینی اتھارٹی اور یمن میں حزب اللہ اور حماس جیسی اسلامی شدت پسند تنظیموں کو حکومت بھی کوئی عہدہ ملا تو ریپبلیکنز ان ملکوں کے لیے بھی سکیورٹی معاونت کم کر دیں گے۔
اس بل میں امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ یروشلم میں منتقل کر لے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے متعدد ممالک کی طرح امریکہ نے بھی وہاں اپنا سفارت خانہ تل ابیب میں قائم کر رکھا ہے۔
ریپبلیکنز کے اس بل کے تحت پاکستان کو دی جانی مالی امداد کا کنٹرول بھی سخت کیا جائے گا۔ ایسا دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے تناظر میں کیا جائے گا۔
اوباما انتظامیہ نے ابھی حال ہی میں پاکستان کو دی جانے والی دو ارب ستّر کروڑ ڈالر کی سالانہ دفاعی امداد کا ایک تہائی حصہ روکنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم واشنگٹن نے پاکستان کو یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ دوہزار نو میں ساڑھے سات ارب ڈالر کے پانچ سالہ سویلین پیکیج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد