پاکستان کے لیے نیا برس ’بقا کے چیلنجز‘ لیے ہوئے
26 دسمبر 2022پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں جمعے کے روز ایک خودکش حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جب کہ دیگر چھ زخمی ہو گئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک پاکستان طالبان نے قبول کر لی ہے۔
پاکستان میں انسداد دہشت گردی میں مدد کی امریکی پیشکش
کے پی میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سیاسی عدم استحکام؟
یہ کالعدم شدت پسند گروپ گزشتہ ماہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ جاری امن مذاکرات سے علٰیحدگی کا اعلان کر چکا ہے اور اس کے بعد سےپاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہو چُکے ہیں۔
افغان طالبان مدد کریں
پاکستانی حکام نے گزشتہ برس کابل پر قبضہ کرنے والے افغان طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تاکہ وہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ امن بات چیت پر آمادہ ہوں، تاہم مذاکرات کے ایسے متعدد ادوار گزر جانے کے باوجود فریقین کسی امن ڈیل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔
ایسے میں پاکستانی سکیورٹی چیلنجز میں فقط تحریک طالبان پاکستان ہی اضافہ نہیں کر رہی بلکہ کابل کے نئے منتظمین بھی پاکستانی سرحدی علاقوں پر شیلنگ میں شامل ہیں۔ افغانستان سے شیلنگ کے ان تازہ واقعات میں متعدد پاکستانی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
مبصرین کے مطابق پاکستان کی سیکورٹی صورتحال اگلے برس مزید خراب ہو سکتی ہے، تاہم پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کے پاس نہ تو بھرپور عوامی مینڈیٹ ہے اور نہ ہی ملک کی معاشی حالت ایسی ہے کہ وہ اس چیلنج سے نمٹ سکیں۔
اقتصادی بدحالی
پاکستانی اقتصادیات گزشتہ کئی دہائیوں سے بدحالی کا شکار ہے مگر عالمی وبا اور اس کے بعد بین الاقوامی سطح پر اقتصادی کسادبازاری نے پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلابوں نے اس صورت حال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔
اکتوبر میں پاکستان میں افراط زر کی شرح چودہ اعشاریہ نو فیصد دیکھی گئی جب کہ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں انتہائی دباؤ کا شکار ہے۔ اس پر پیٹرولیم مصنوعات کی بلند قیمتوں نے ایک عام فرد کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ پاکستانی مرکزی بینک کے مطابق ملکی غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر چھ اعشاریہ سات ارب ڈالر تک گر چکے ہیں، جوگزشتہ کئی برسوں کی پست ترین سطح ہے۔
اسٹیٹ یونیورسٹی نیویارک میں سیاسیات کے شعبے کی پروفیسر نیلوفر عباسی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ آئندہ برس بھی ہاکستان کئی طرح کے چیلنجز کا شکار رہے ھا، جس میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اقتصادی بدحالی میں اضافہ شامل ہے۔
دواندیشی موجود نہیں
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ مسائل کی شکار حکومت کے پاس ملکی اقتصادیات میں بہتری کا کوئی حل یا منصوبہ موجود نہیں۔
واشنگٹن میں قائم ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکارلز سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر میشاعل کوگلمن کے مطابق، دو ہزار تیئس میں حکومت کوشش کرے گی کہ قلیل المدتی حل کا استعمال کرتے ہوئے وہ کچھ وقت حاصل کر لے لیکن یہ حکومت مسائل کا حل نہیں کر سکتی۔ ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد حکومت چین یا خلیجی ممالک سے مزید بیل آؤٹ فنڈز لے گی۔‘‘
سابق پاکستانی سفیر برائے امریکا اور ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر برائے جنوبی و وسطی ایشیا حسین حقانی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ سات دہائیوں میں انسانی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی اور متنوع سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے فقط ٹیکسٹائل برآمدات اور قرض لینے پر اپنی اقتصایات کو موقوف رکھا۔ پاکستانی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے مزید قرض لینے اور درآمدات پر بندشوں سمیت مختلف طرز کے اقدامات کرے گا، تاہم اقتصادیات میں بہتری کے بنیادی اصلاحات پر اب بھی کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔‘‘
ع ت، ک م (ہارون جنجوعہ)