پاکستان کے معتبر ناول نگار : زاہد حسن
7 جولائی 2009اردو زبان میں ناول کی ایک مستحکم روایت موجود ہے۔ بھارت میں قرۃ العین حیدر کے قلم سے ’’آگ کا دریا‘‘ جیسے لافانی ناول نکلے ہیں تو پاکستان میں عبداللہ حسین نے ’’اُداس نسلیں‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ نے ’’راکھ‘‘ اور ’’بہاؤ‘‘ جیسے یادگار ناول تخلیق کئے ہیں۔ سوال لیکن یہ ہے کہ ناول کے شعبے میں ادیبوں کی نئی نسل کا حصہ کہاں ہے؟ نوجوان پاکستانی ادیب زاہد حسین کا گزشتہ چند برسوں کے دوران اُن کے اردو ناول ’’عشق کے مارے ہوئے‘‘ کے باعث کافی چرچا رہا ہے۔
چند سال پہلے جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے وابستہ کرسٹینا اوئسٹرہیلڈ نے اپنے ایک مطالعے کے لئے جن تین پاکستان ناولوں کا انتخاب کیا، اُن میں مستنصر حسین تارڑ کے ’’راکھ‘‘(1987ء) اور احمد بشیر کے ’’دل بھٹکے گا‘‘ (2003ء) کے ساتھ ساتھ زاہد حسن کا ناول ’’عشق کے مارے ہوئے‘‘ (2003ء) بھی شامل تھا۔ کرسٹینا اوئسٹرہیلڈ کے مطابق یہ تینوں کتابیں پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی بدنظمی اور حکومتی سطح پر بد انتظامی کو واضح کرتے ہوئے ہر سطح پر ایک تبدیلی کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔
زاہد حسن کا سن2003ء میں شائع ہونے والا اردو ناول ’’عشق کے مارے ہوئے‘‘ دراصل پنجابی سے ترجمہ ہے۔ پنجابی میں اُن کی یہ کتاب ’’عشق لتاڑے آدمی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اِس ناول میں حقیقت کتنی تھی اور افسانہ کتنا، اِس بارے میں بات کرتے ہوئے زاہد حسین نے ڈوئچے ویلے کے ہفتہ وار ادبی اور ثقافتی پروگرام کہکشاں کو بتایا:’’جو بھی کچھ فکشن آپ لکھتے ہیں، اُس میں زیادہ تر تو حقیقت ہی ہوتی ہے لیکن ایک لکھنے والا اُسے فکشن کا رنگ دیتا ہے، کہانی کا روپ دیتا ہے۔ ’’عشق کے مارے ہوئے‘‘ میں بھی زیادہ تر حقیقت ہی ہے اور وہ حقیقت ہماری پنجاب کی دھرتی کی ہے، وہاں کے جو لوگ ہیں، اُن کی جو زندگیاں ہیں، اُن کے جو روز و شب ہیں، اُن کے جو دکھ ہیں، اُن کے جو مسائل ہیں اور اُن کے جو وہم ہیں، عقیدے ہیں، بھرم ہیں، اُن کو مَیں نے بنیاد بنا کر اِس ناول کو مکمل کیا۔ تو زیادہ تر اِس میں حقیقت ہی تھی، تھوڑا بہت افسانہ بھی ہے۔‘‘
زاہد حسین نے کہا کہ یہ تھوڑا سا افسانہ بعض اوقات لکھنے والے کے لئے ایک بڑی مشکل بھی بن جاتا ہے لیکن اُن کے لئے یہ مشکل اِس طرح آسان ہوئی کہ بچپن ہی سے وہ اُس روایتی ماحول میں پروان چڑھے، جہاں نانی دادی دیو مالائی داستانیں سنایا کرتی تھیں۔ اُنہوں نے بتایا:’’میری ماں نے جو کہانیاں مجھے بہلانے کے لئے سنائیں اور میری دلچسپی کے لئے عام سی باتیں جس طرح سے فکشن کا رنگ دے کر مجھ تک پہنچائیں، میرے خیال میں یہ بھی ایک چیز تھی، جو میرے لکھنے کے عمل میں شامل ہوئی۔‘‘
1969ء میں فیصل آباد کے ایک گاؤں جھوک پیرا میں پیدا ہونے والے زاہد حسن 1986ء میں لاہور پہنچے اور تب سے یہی شہر اُن کا مسکن ہے۔ لاہور میں وہ بہت سی ادبی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے ہیں، جہاں ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتوں میں اُن کا ادبی ذوق پروان چڑھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ادیب کو لکھنے کے مقابلے میں پڑھنا زیادہ چاہیے۔ خود اُنہوں نے جہاں برصغیر کی مقامی زبانوں کا ادب پڑھا اور خاص طور پر پنجابی میں لکھنے والے نامور ادیبوں افضل حسن رندھاوا، امرتا پریتم، بلونت سنگھ اور منشا یاد کی تخلیقات سے متاثر ہوئے، وہیں اُنہوں نے لاطینی امریکی ادب کی نامور شخصیات مثلاً مارکیز، بورخیس، ازابیل آئیندے اور پاؤلو کوہلیو کی تخلیقات سے بھی فیض حاصل کیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں نوجوان لکھنے والے ناول کیوں زیادہ نہیں لکھ رہے، زاہد حسین نے کہا کہ ناول کے لئے بہت زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے، دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ ا دیب کو وہ بہت ساری گتھیاں سلجھانا پڑتی ہیں، جو وہ خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ایک اور بڑی وجہ اُن کے خیال میں یہ بھی ہے کہ لکھنے والا اپنے معاشی مسائل ہی میں اُلجھا رہتا ہے اور اِسی لئے ادب کو مناسب توجہ نہیں دے پاتا۔
آج کل وہ ایک اور ناول پر کام کر رہے ہیں، جو سوات کے پس منظر میں ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُن کی کہانیوں کی بھی ایک کتاب منظرِ عام پر آئی ہے۔ زاہد حسین کا پنجابی ناول ’’عشق لتاڑے آدمی‘‘ جالندھر سے دیپک پبلشرز کے زیر اہتمام گرمکھی میں بھی شائع ہوا ہے۔
اِس پنجابی ناول کے لئے زاہد حسین کو ’’مسعود کھدر پوش‘‘ ایوارڈ کے ساتھ ساتھ ’’عبدالطیف گجراتی‘‘ ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔