پاکستان: گرمی کی شدید لہر، کم از کم 250 ہلاک
22 جون 2015ملک بھر اور خصوصاً کراچی میں گزشتہ چار روز سے جاری گرمی کی شدید لہر گزشتہ چار روز سے جاری ہے۔ مرے کو مارے شاہ مدار کی مصداق کراچی کے شہری جان لیوا گرمی کے ساتھ ساتھ شدید لوڈ شیڈنگ کی بھی زد میں ہیں۔ شعبہ ء صحت کے عہدیدار اعجاز افضل کے مطابق کراچی میں درجہ حرارت تقریباﹰ چوالیس سینٹی گریڈ تھا جبکہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ کراچی کے علاوہ صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں بھی متعدد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ سینکڑوں افراد زیر اعلاج ہیں۔
بندرگارہی شہر کراچی دن رات سرگرمیوں کا مرکز رہتا ہے مگر شدید گرمی کے باعث دن میں بھی سڑکیں ویران نظر آرہی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ چار روز کے دوران شہر کا درجہ حرارت 36 سے 44 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہا جبکہ ہفتہ کے روز کراچی میں گرمی کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا جب درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ تاہم آج پیر کے روز بادل چھا جانے کی وجہ سے گرمی کی شدت میں کچھ کمی آئی ہے۔
گرمی کی شدید لہر عمر رسیدہ افراد کے لیے خاص طور پر جان لیوا ثابت ہوئی۔ کراچی کے معروف جناح ہسپتال کے ایمرجینسی وارڈ میں سینکڑوں کی تعداد میں گرمی سے متاثرہ افراد کو لایا جا رہا ہے۔
احسن حسین اپنی ضعیف والدہ کو کنیز فاطمہ سوسائٹی کے علاقے سے لے کر جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے۔ ڈاکٹر نے چند منٹ بعد ہی ان کی والدہ کی وفات کی خبر سنائی۔ احسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں ہفتے کی دوپہر سے بجلی کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ تاہم گرمی کے باعث اتوار کے روز دن میں بجلی کے تار ٹوٹ گئے، ''کراچی الیکٹرک کے نمبر پر کئی گھنٹے تک کال کر کے ہم نے شکایت درج کروائی لیکن رات گئے تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ شدید گرمی کے باعث میری ضعیف والدہ کی طبیعت بگڑنے لگی۔ شدید گرمی اور حبس کے باعث میری والدہ آج صبح بے ہوش ہوگئیں، جس کے بعد ہم انہیں یہاں ایمرجنسی میں لے آئے جہاں ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘
صرف احسن ہی نہیں بلکہ یہاں آنے والے اکثر افراد نے یہ ہی گلہ کیا کہ گرمی سے تو وہ بے حال ہیں ہی لیکن کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی نے بھی ان کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیا۔ اس بات کی تائید کرتے ہوئے یہاں آنے والی ایک اور خاتون سدرہ بی بی نے بتایا کہ وہ کراچی میں گلشن اقبال کے علاقے کی رہائشی ہیں، جو اپنے شوہر اور بچوں کو بیمار حالات میں ہسپتال لائی ہیں، ’’میرے شوہر ملازمت پیشہ ہیں اور گلشن میں ہی ایک دکان پر کام کرتے ہیں۔ دکان پر دن بھر لائٹ غائب رہتی ہے لیکن جب وہ تھکے ہارے گھر لوٹتے ہیں تو گھر پر بھی بجلی نہیں ہوتی۔ آخر ان ہی حالات میں ان کی طبعیت اچانک بگڑ گئی۔ دوسری طرف میرے بچے ابھی کافی چھوٹے ہیں۔ دن میں تو کسی طرح وقت کٹ جاتا ہے لیکن رات میں بھی گرمی اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو بھی سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ ان سب کی حالت دیکھ کر آخر مجھے انہیں ہسپتال لانا پڑا ہے۔‘‘
ریکارڈ توڑ گرمی اور کے الیکٹرک کی ناقص کارکردگی کے ستائے افراد کی ہلاکت میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے جس کی تصدیق کراچی کے جناح ہسپتال میں شعبۂ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی بھی کرتی ہیں ۔ ان کے مطابق، ''ہفتے کی رات سے اتوار کی شب تک گرمی کے باعث ہلاک ہونے والے 50 سے زائد افراد کی لاشیں جناح ہسپتال لائی گئیں۔ اس تعداد میں مستقل اضافہ ہوتا رہا اور اب یہ تعداد بڑھ کر85 تک جا پہنچی ہے ۔‘‘ ڈاکٹر جمالی بتاتی ہیں کہ زیادہ تر افراد شدید گرمی کے باعث مختلف امراض کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے ہیں۔
صرف جناح ہسپتال ہی نہیں بلکہ سول اسپتال کی انتظامیہ کے مطابق گرمی کے باعث اسپتال لائے جانے والے 29 جبکہ عباسی شہد اسپتال میں 35 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔
ادھر ایدھی سرد خانے میں بھی تین روز کے دوران ڈیڑھ سو کے قریب افراد کی لاشیں منتقل کی گئی ہیں ۔ ایدھی انتظامیہ کے مطابق جن میں سے زیادہ تر افراد گھر سے باہر گرمی کی شدت نہ سہہ پانے سے چل بسے۔ ایدھی ہوم کے مطابق وہاں موجود لاوارث لاشوں کی تدفین کا عمل تیز کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث ایدھی سرد خانے میں کولنگ کا عمل متاثر ہورہا ہے اور لاشوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے جلد تدفین کی جارہی ہے اور اب تک فوری طور پر 30 لاوارث لاشوں کی تدفین کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی کے باعث لوگ اپنے رشتہ داروں کی لاشیں بھی وہاں لے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے سرد خانے میں گنجاش ختم ہو گئی ہے اور مزید لاشوں کو وہاں رکھنے کے لیے وصول نہیں کیا جا رہا ۔