پاکستان: ہندو اور دیگر اقلیتیں تشدد کی لپیٹ میں
6 مئی 2014انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق لاڑکانہ میں مندر جلانے کا حالیہ واقعہ بھی توہین مذہب کا ایک الزام سامنے آنے کے بعد پیش آیا تھا۔ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات کے بعد اس طرح کے واقعات اب ایک معمول بن چکے ہیں، جن میں زیادہ تر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حقوق انسانی کے ایک پاکستانی گروپ کے مطابق رواں برس مارچ اس حوالے سے نمایاں رہا، جس میں ہندوؤں پر حملوں کے گزشتہ بیس برس کے سب سے بدترین واقعات پیش آئے۔ مارچ میں مشتعل مسلمانوں کے جتھوں نے حملے کر کے پانچ مندوں کو تباہ کیا۔ پچھلے پورے سال میں ہندو مندروں پر حملوں کے نو واقعات پیش آئے تھے۔ تاہم پاکستان میں صرف ہندو ہی اس تشدد سے متاثر نہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں تمام اقلیتیں بشمول ہندو، مسیحی، احمدی حتیٰ کہ مسلمان شیعہ کمیونٹی بھی ان حملوں سے متاثر ہو رہی ہیں جب کہ ریاست اس تشدد کو رکوانے میں مکمل بے بس اور ناکام دکھائی دیتی ہے بلکہ کسی حد تک ان واقعات پر کوئی نوٹس نہ لے کر وہ انہیں شہ دے رہی ہے۔
گزشتہ برس مسلم لیگ نواز کے برس اقتدار آنے کے بعد اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلام پسندوں کے لیے زیادہ نرم گوشے کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق اس سے پاکستانی ریاست کے اس عزم پر بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو بھارت یا افغانستان پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کو شکایات ہیں کہ پاکستانی خفیہ ادارے شدت پسند گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہیں، تاہم اسلام آباد حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔
پاکستانی کی تقریباﹰ 180 ملین آبادی میں غیرمسلم شہریوں کا تناسب انتہائی کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے حوالے سے کوئی مؤثر قانون سازی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ماضی کے مقابلے میں مزید نچلے درجے پر رکھا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد حکومت ملک میں موجود اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہی ہے۔