پاکستان یمن میں ثالث کا کردار ادا کرے: مولانا فضل الرحمن
6 اپریل 2015سعودی عرب کی جانب سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کاروائی کے لئے پاکستانی فوج بھجوانے کی درخواست پربحث کے لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس پیر کے روزمنعقد ہوا۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر دفاع نے یمن میں جنگ کے حوالے سے جو بیان دیا اس میں کوئی واضح یا ٹھوس بات نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب کی خود مختاری کو خطرہ ہوا تو پاکستان سخت رد عمل کا مظاہرہ کرے گا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سعودی عرب کی خود مختاری کیا ہے اور پاکستان کس سخت ردعمل کا مظاہرہ کرے گا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ "آپ نے ان(سعودی عرب) کو یقین دہانی کرائی ہے کہ سعودی عرب کی سکیورٹی بہت عزیز ہے تو آپ فوج بھجیں گے ۔ کیا پائلٹس بھیجیں گے ۔انکی آپ سے کیا توقعات ہیں ہوائی جہاز ،بحری بیڑے اور فوجی دستے مہیا کیے جائیں اس پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟"
انہوں نے کہا کہ سعودی حکومت ، سعودی ریاست اور حرمین شریفین تین الگ الگ چیزیں ہیں۔ان تینوں کے بارے میں پاکستانی حکومت کی پالیسی کیا ہے ۔اعتزاز احسن نے کہا کہ "ہم آپکو مینڈیٹ دینے آئے ہیں چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں جانتے ہیں کہ بیس لاکھ پاکستانی سعودی عرب میں ہیں لیکن آپ واضح طور پر ہمیں اپنی ترجیحات کا بتائیں۔"
یمن جنگ کے معاملے پر مشترکہ اجلاس کا زیادہ حصہ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی استعفوں کے بعد ایوان میں واپسی کے معاملے پر سیاسی بیان بازی کی نظر ہوا۔ حزب اختلاف کی جماعت ایم کیوایم، حکومت کی اتحادی جمعیت علماء اسلام (ف) نے تحریک انصاف کے ارکان کی اجلاس میں شرکت کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی۔ اسپیکر ایاز صادق نے صورتحال پر قابو پانے کے لئے کہا کہ یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ ارکان کو اسمبلی میں آنے دیں یا نہیں۔ اس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو ایک ایک کرکہ کھڑا کیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے استفعی دیا ہے کہ نہیں؟خواجہ آصف نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہا کہ "ڈی چوک میں کھڑے ہوکر اسمبلی کو گالیاں دینے والے کس منہ سے اسمبلی میں بیٹھے ہیں انہیں شرم آنی چاہیے".
خواجہ آصف کی تقریر کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسمبلی سے باہر چلے گئے اور انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا خواجہ آصف نے اسمبلی میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کی طرف سے جوڈیشل کمشن بنانے کے معاہدے کی وجہ سے اسمبلی میں آئے تھے۔ عمران خان نے یمن کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ"نواز شریف ہم سے جھوٹ مت بولو پرویز مشرف نے بھی ہم سے جھوٹ بولا تھا کہ امریکی فوج کو صرف لاجسٹک سپورٹ دی جائے گی لیکن ہم نے جنگ زمے لے لی اور ابھی تک اس سے باہر نہیں آسکے اور اب ایک اور جنگ کی طرف جارہے ہیں۔"
عمران خان نے کہا کہ یمن میں خانہ جنگی جاری ہے ہے اور یہ فرقہ وارانہ جنگ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اس جنگ میں فریق بنا تو پھر ثالثی کیسے کر سکے گا۔
جمیعت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے بھی یمن میں جنگ کا حصہ بننے کی بجائے ثالثی کا کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو وزیر دفاع خواجہ آصف نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی جنگ میں قومی مفاد پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایوان کو آگاہ کیا کہ کہ سعودی حکومت نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف پاکستان سے برّی، بحری اور فضائی تعاون ملنے کی امید ظاہر کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سعودی سلامتی کے حوالے سے حکومت کی پالیسی میں کوئی ابہام نہیں اور سعودی عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا بھرپور دفاع کیا جائے گا۔
پاکستانی وزیرِ دفاع نے کہا کہ سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور وزیر خارجہ نے وزیراعظم نواز شریف سے رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے اپنی علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے پاکستان کے عزم کی تعریف کی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی حکومت نے گذشتہ دنوں میں اس امید اور ضرورت کا اظہار کیا کہ پاکستان یمن جنگ میں سعودی اتحاد کا حصہ بنے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ "ایئرکرافٹ، بحری جہازوں اور زمینی فوجی دستوں ان تینوں چیزوں کے لیے پچھلے بارہ سے تیرہ روز میں سعودی عرب نے اپنی ضرورت سے آگاہ کیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے یمن کی صورتحال پر برادر اسلامی ممالک کی قیادت سے مشاورت شروع کر رکھی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے ترکی کا دورہ کیا ہے جبکہ آنے والے دنوں میں مزید ممالک کے دورے بھی کریں گے۔