پاکستان، یکساں تعلیمی مواقع کی کمی اور غریب بچوں کا المیہ
1 اکتوبر 2021ایسے بیس فیصد بچوں کے والدین اعلی درجے کے پرائیوٹ اسکولوں میں مہنگی تعلیم کا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ملک کے اسی فیصد بچے سرکاری اور نچلے درجے کے نجی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جن کی فیس غریب والدین بمشکل برداشت کر پاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار دن بدن گرتا جا رہا ہے۔
مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں ابتدا ہی سے انگریزی پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔ دوسری طرف، جن اسکولوں میں غریب بچے جاتے ہیں، وہاں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں پہ کام نہیں ہوتا بلکہ بچوں کو رٹا لگا کر چیزیں یاد کروائی جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ ان اسکولوں میں انگریزی کے ماہر استاتذہ کی عدم فراہمی کی وجہ سے بچے انگریزی پر 'ایلیٹ پرائیویٹ اسکولوں‘ کے بچوں کی طرح عبور حاصل نہیں کر پاتے۔
پہلی سے بارہویں جماعت تک یکساں تعلیمی مواقع کے فقدان کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلوں کے وقت غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بچے بہتر مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، جو انہیں مستقبل میں ایک اچھی زندگی فراہم کر سکتے ہیں۔
دوسری طرف اعلی پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے بچے انگریزی اور اس زبان میں پڑھائے گئے دوسرے مضامین میں مہارت کی وجہ سے نا صرف ملکی سطح پہ بلکہ بین الاقوامی شہرت یافتہ جامعات میں میرٹ کے بل بوتے پر داخلہ حاصل کر لیتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں اپنے بل بوتے پر شدید محنت کرتے ہوئے غریب گھرانوں کے چند بچے اعلی جامعات تک اسکالرشپ پر رسائی حاصل کرتے ہیں لیکن اسی طرح کے دوسرے شعبہ جات سے منسلک لوگ، جو اپنے بچوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر کے تعلیم دلواتے ہیں، وہ سرکاری جامعات میں چند مخصوص شعبوں تک ہی پہنچ پاتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ تعلیمی مواقع کے ایکسپوژر کی کمی بھی ہے۔ کیونکہ ان بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں نئے اور جدید شعبہ جات کے بارے میں محدود اور اکثر نا ہونے کے برابر معلومات ہوتی ہیں اور انہیں کیریئر کاؤنسلنگ کے مواقع بھی میسر نہیں آتے ہیں۔
غربت میں پرورش حاصل کرنے والے بچے اکثر و بیشتر پیسوں کے کمی، حوصلہ افزائی، رہنمائی اور یکساں تعلیمی مواقع کے فقدان اور دوسرے مسائل سے نمٹتے ہوئے تعلیم میں عدم دلچسپی کی بناء پر اسے ادھورا چھوڑ کر کمانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
تعلیم کے ذریعے ترقی کا خواب اور غربت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی، جو شمع ان بچوں اور غریب والدین کے دل میں جلی ہوتی ہے، وہ سفر کے آغاز میں ہی بجھ جاتی ہے۔
غریب والدین لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دیتے ہیں اور لڑکوں کو مزدوری پہ لگا دیتے ہیں تاکہ آمدنی بڑھائی جا سکے۔ غرض مستری کا بچہ مستری، کمہار کا بچہ کمہار اور رکشے والے کا بچہ ایک اور رکشے والا بن جاتا ہے۔
دوسری طرف کم تعلیم یافتہ لڑکیاں، جو نچلے درجے کے متوسط گھرانوں میں بیاہ کر جاتی ہیں، وہ اور ان کی نسل اکثر و بیشتر غربت کی چکی میں پستے ہیں۔ غرض یہ کہ بنیادی سطح پہ یکساں تعلیمی مواقع کا فقدان معاشرے میں غربت کو مزید تقویت دینے کا سبب بنتا ہے۔