پاک افغان سرحدی جھڑپ، افغان پولیس اہلکار ہلاک
2 مئی 2013ایک سینئر افغان اہلکار کے بقول بدھ کو رات گئے دونوں ملکوں کے فوجی دستوں کے مابین دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس جھڑپ کے بعد ایک متنازعہ بارڈر گیٹ پر سینکڑوں اضافی افغان فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ ادھر پاکستانی عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ شب فائرنگ کا سلسلہ ایک پاکستانی چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کے بعد شروع ہوا جبکہ سینئر افغان اہلکار کے بقول اس مسلح جھڑپ کا سبب پاکستانی دستوں کی طرف سے اس بارڈر گیٹ کی حصار بندی کی کوشش بنی۔ اس تازہ واقعے کے بعد دونوں پڑوسی ممالک کے مابین پہلے سے پائی جانے والی کشیدگی میں مزید اضافے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان 2014ء میں افغانستان سے نیٹو کے جنگی دستوں کے انخلاء سے پہلے افغان طالبان کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے رضا مند کرنے میں کابل کی مدد کرے۔ تاہم ان دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے پائے جانے والے عدم اعتماد کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ کسی چھوٹی سے بات پر بھی ہو سکتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے افغانستان میں پاکستان کے رویے کے بارے میں پائی جانے والی مایوسی میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کابل حکومت کا الزام ہے کہ اسلام آباد افغانستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ امن عمل میں طالبان کو مذاکرات کے لیے راضی کرنے میں نہ تو زیادہ دلچسپی رکھتا ہے اور نہ ہی اسلام آباد کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس مدد کی گئی ہے۔
افغان اہلکاروں کا الزام ہے کہ پاکستان کی طرف سے افغان طالبان اور دیگر شورش پسند عناصر کی مدد کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا جوابی الزام یہ ہے کہ افغانستان اپنے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد جنگجوؤں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے ہوئے ہے۔
دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین کشیدگی میں حالیہ اضافہ اس وقت ہوا جب افغان اہلکاروں کی طرف سے پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ افغان سرحدی علاقے کے اندر اپنا ایک ملٹری گیٹ قائم کر رہا ہے۔ اسی دوران افغان صدر حامد کرزئی نے اعلیٰ افغان اہلکاروں کو اس سرحدی گیٹ اور متنازعہ ڈیورنڈ لائن کے قریب مبینہ پاکستانی فوجی تنصیبات کے فوری خاتمے کے لیے اقدامات کی خاطر احکامات جاری کر دیے ہیں۔
ڈیورنڈ لائن پاک افغان سرحدی لائن کے طور پر 1893ء میں برطانیہ نے قائم کی تھی۔ پاکستان نے اسے تسلیم کیا تھا تاہم افغانستان اس سے شروع سے ہی انکار کرتا رہا ہے۔ کابل کا موقف ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے آر پار ہونے والی کسی بھی قسم کی سرگرمی کو دونوں ملکوں کی طرف سے منظور کیا جانا چاہیے۔
km / mm (Reuters)