1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک روس تعلقات اور خطے کی بدلتی ہوئی سیاست

تنویر شہزاد، لاہور21 نومبر 2014

اسٹریٹیجک لحاظ سے دیکھا جائے تو پاک روس بڑھتے ہوئے تعلقات خطے کی بدلتی ہوئی سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عالمی طاقتیں نئی صف بندی کر رہی ہیں اور نئے زمینی حقائق نئے رابطوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DrJc
تصویر: imago/Xinhua

پاکستان میں دفاعی اور عالمی امور کے ماہرین روس اور پاکستان کے مابین ہونے والے عسکری معاہدے کو ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملک عسکری شعبے میں باہمی تعاون کو فروغ دیں گے، بین الاقوامی سلامتی کو یقینی بنانے اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان پچھلے پینتیس برسوں سے روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں کر رہا تھا لیکن اس میں کامیابی نہیں ہو پا رہی تھی۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ روسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بھارتی اثرات بہت نمایاں تھے۔

سردار آصف کے بقول اب حالات بدل رہے ہیں، ’’بھارت نے امریکا کے ساتھ سول نیوکلیئر معاہدہ کر لیا ہے۔ وہ اپنی فوج کے اسلحے کو مغربی ہتھیاروں سے بدلنا چاہتا ہے۔ اسے ماضی کی طرح اب روس کی ضرورت نہیں رہی۔ اس لیے بھارت نے یوکرائن اور کریمیا کے مسئلے پر بھی روس کا ساتھ نہیں دیا۔ بدلتے ہوئے حالات روس اور پاکستان کو قریب لانے میں مدد گار ہو رہے ہیں۔‘‘

سردار آصف کے بقول دیکھنا یہ ہے کہ روس پاکستان کو گن شپ ہیلی کاپٹر اور دیگر دفاعی سامان فراہم کرتے ہوئے کس قسم کی شرائط عائد کرتا ہے۔ ان کے بقول چین اور امریکا کے بعد روس سے تعلقات کی بحالی پاکستان کے غیر جانب دارانہ تاثر کو فروغ دے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس معاہدے سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا، ’’خاص طور پر پاکستان کو سستا اسلحہ ملنے کی امید کی جا سکتی ہے، البتہ اس کے خلاف بھارت کی طرف سے ردعمل آ سکتا ہے اور بھارت اس معاہدے کو غیر موثر بنانے کی کوششیں کر سکتا ہے۔‘‘سردار آصف کے بقول آنے والے دنوں میں یہ بھی دیکھنا ہو گا یہ دونوں ملک مختلف عالمی ایشوز پر ایک دوسرے کے ساتھ کتنا چل سکیں گے۔

عالمی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ روس اور پاکستان کے مابین ہونے والا حالیہ معاہدہ ایک فریم ورک معاہدہ ہے، جس میں ان شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں دونوں ملک باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔

ڈاکٹر عسکری کے بقول بدلتے ہوئےعالمی حالات کے پیش نظر پاکستان اور روس دونوں اپنی خارجہ پالیسی کے آپشنز کو وسیع کر رہے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے ساتھ معاہدے کے باوجود بھارت سے تعلقات روس کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ رہے گا جبکہ پاک روس معاہدہ امریکا کے خلاف نہیں بلکہ یہ امن کے قیام کی طرف ایک قدم ہے۔

ڈاکٹر عسکری کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں آرمی چیف کی امریکی انتظامیہ سے ملاقاتیں اور آسلام آباد میں سول حکومت کے روس سے معاہدے دونوں کو سول اور ملٹری حکام کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے بقول کوئی ملک پاکستان کی ملٹری کو نظرانداز کر کے کاونٹرٹیررازم کے حوالے سے سویلین حکومت سے تعلقات نہیں بنا سکتا، ’’اب پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے وعدوں کو نبھانا ہوگا، اس سے پاکستان کی عالمی سطح پر کریڈیبیلٹی بڑھے گی۔ پاکستان کے عالمی سطح پر بہتر تعلقات سے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کو معمول پر لانے میں مدد ملے گی۔‘‘

جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات کی استاد پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد کا کہنا ہے کہ پاک روس معاہدہ نہ صرف خطے میں پاکستان کی اہمیت کا اعتراف ہے بلکہ اس کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ارم کے مطابق یہ معاہدہ بہت اچھا ہے لیکن اصل چیلنج اس پر عملدرآمد کا ہوگا۔ ان کے بقول خارجہ پالیسی کی اہم ترجیحات کے حوالے سے سول حکومت، فوج اور فارن آفس میں بہتر انڈرسٹینڈنگ ضروری ہے اور حکومتوں کے آنے جانے سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ ان کے مطابق امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد اس خطے میں پاک روس تعلقات میں بہتری پاکستان کے دیرپا مفاد میں ہے۔

سینئر صحافی سجاد میر کے بقول عالمی طاقتیں نئی صف بندی کر رہی ہیں اور نئے زمینی حقائق نئے رابطوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ روزنامہ ایکپریس کے ادارتی صفحات کے ایڈیٹر لطیف چوہدری نے بھی پاک روس معاہدے کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے فوجی سربراہ کی امریکا میں پذیرائی اور عین اسی وقت پاکستان کی سول حکومت کی طرف سے امریکا مخالف روس کے ساتھ معاہدہ معنی خیز ہے۔ ان کے بقول دیکھنا یہ پڑے گا کہ یہ معاہدہ پاکستان کی سول حکومت کی طرف سے پاکستانی آرمی چیف کی پذیرائی کرنے والے امریکا کے لیے کوئی پیغام تو نہیں ہے؟

عسکری امور اور پاک روس تعلقات کے ایک ماہر بریگیڈئیر (ر) نادر میر نے پاک روس معاہدے کو ایک بڑا بریک تھرو قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ملک آگے چل کر اقتصادی میدان میں بھی باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔