’پاگل نہیں کہ میں نے پاکستان چھوڑا‘، پاکستانی مہاجر
27 اکتوبر 2017فرانسیسی شہر کَیلے میں مقیم پاکستانی مہاجر عمر کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار چودہ میں طالبان باغیوں نے اس کے بھائی اور والد کو ہلاک کر دیا تھا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے اس چوبیس سالہ پاکستانی شہری نے مزید کہا کہ اس کے والد نے طالبان کو اپنا ’ایک بیٹا دینے‘ سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد ان جنگجوؤں نے اس کے والد اور بھائی کو قتل کر دیا۔
’70 ہلاکتوں میں ملوث‘ پاکستانی مہاجر ہنگری سے گرفتار
پاکستانی پناہ گزین، جو پاکستان واپس نہیں جانا چاہتا
’ملک بدری یقینی موت ہو گی‘: پاکستانی مہاجر کو رکوانے کی کوشش
اپنا مکمل نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عمر نے کہا کہ کوئی بھی شخص بلاوجہ اپنا ملک نہیں چھوڑتا، ’’ہم پاگل نہیں کہ ہم نے اپنا ملک چھوڑ دیا۔ اگر کوئی یوں کرتا ہے تو اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔‘‘
عمر دس دنوں میں چار مرتبہ کوشش کر چکا ہے کہ وہ کَیلے سے کسی طرح کسی ٹرک میں چھپ کر برطانیہ پہنچ جائے۔ تاہم وہ ہر بار اپنی اس کوشش میں ناکام رہا۔ اس فرانسیسی بندرگاہی شہر میں مہاجرین کی قیام کی وجہ ہی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح برطانیہ پہنچ جائیں۔
عمر نے اپنے مہاجرت کے سفر کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ چھ ماہ کی پیدل مسافت کے بعد وہ مشرقی یورپ پہنچا تھا۔ اس مقصد کی خاطر وہ ایران کے دشوار گزار اور برف پوش پہاڑوں سے ہوتا ہوا بھوک اور پیاس کی حالت میں یورپ پہنچا۔ عمر کے مطابق یہ ایک انتہائی تکلیف دہ سفر تھا لیکن اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
اس پاکستانی مہاجر نے جب اپنی یہ کہانی اے پی کو سنائی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ عمر نے کہا کہ جب اس کی والدہ کو علم ہوا کہ طالبان نے ان کے شوہر اور بیٹے کو ہلاک کر دیا ہے، تو انہوں نے عمر سے کہا، ’’میں نے تمہارے بھائی اور والد کو کھو دیا ہے۔ اب میں تمہیں گنوانا نہیں چاہتی۔‘‘ عمر کے بقول اس واقعے کے بعد اس نے پاکستان کو خیرباد کہنے کا ارادہ کیا اور یورپ جانے کی ٹھانی تھی۔
عمر کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح برطانیہ پہنچ جائے۔ تاہم کَیلے میں سکیورٹی حکام بہت چوکنا ہو چکے ہیں۔ اکتوبر سن دو ہزار سولہ میں ایک آپریشن کے تحت فرانسیسی حکام نے تب ’جنگل‘ کے نام سے مشہور کَیلے کے مہاجر کیمپوں کو زبردستی ختم کر دیا تھا۔
تب ان کیمپوں میں مہاجرین کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ اب آہستہ آہستہ یہ مہاجرین کَیلے میں دوبارہ جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت بھی کَیلے میں چھ سو تا ایک ہزار مہاجرین اپنی عارضی پناہ گاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ ان سب کی خواہش برطانیہ جانا ہی ہے۔