پاگل وہ تھا یا ہجوم؟
15 فروری 2022لوگ کہنے لگے کہ وہ ذہنی معذور تھا، پگلہ تھا لیکن جب ہم نے مقتول مشاق احمد کے بھائی کو یہ کہتے سنا کہ اس کے بھائی کو رسیوں سے باندھ کر مارا گیا، اس کی انگلیاں کاٹ دی گئیں اور لوگ مرنے کے بعد بھی اسے مارتے رہے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ 'پاگل وہ تھا یا ہجوم‘۔
مردان میں مشال خان کی بھی انگلیاں کاٹی گئی تھیں اور سیالکوٹ میں پریانتھا کی راکھ پر بھی جوتیاں برسائی جاتی رہی تھیں۔ ان بہیمانہ و لزرہ خیز رویوں سے نتیجہ یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ذہنی خلل دراصل اس طرح مارنے والوں میں ہی ہوتا ہے۔
میاں چنوں میں رونما ہونے والے انسانیت سوز جرم کے اگلے ہی دن لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آتا ہے، جس میں قندیل بلوچ کے غیرت کے نام پر قتل کے مرکزی ملزم قندیل کے بھائی کو عمر قید کی سزا سے بری کر دیا جاتا ہے۔
اسی دن سینیٹ میں سینیٹرز نے خانیوال بلاسفیمی قتل کیس کی مذمت میں ایسی پر جوش تقریریں کیں کہ در و دیوار ہلا دیے۔ سینیٹرز نے فرمایا کہ ایسے واقعات کے بارے میں برسوں سے سن رہے ہیں، کیا ان پر دکھ کا اظہار کر لینا کافی ہے، سر ندامت سے جھک جاتا ہے وغیرہ وغیرہ تو جناب عرض ہے کہ تقریروں سے در و دیوار ہلانے کی روایت بہت فرسودہ و پرانی ہو چکی۔
اگر قانون بنانے والے ہی ملک کے اعلی ایوانوں میں یہ سوالات اٹھائیں گے کہ ایسے بھیانک جرائم کا ذمہ دار کون ہے اور ان کو روکا کیوں نہیں جا رہا تو عوام یہ سوال کس کے پاس لے کر جائیں گے؟
جن صاحب اقتدار لوگوں کا کام جواب دینا بنتا ہے، وہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ اگر حکومت، ریاست اور ادارے انتہا پسندوں کے سامنے اتنے بے بس اور لاچار ہو چکے ہیں، تو بتاتے کیوں نہیں کہ 'ہم سے نہ ہو سکے گا‘۔
وہ یہ سوال ان شدت پسندوں سے کر رہے ہیں، جو ان جرائم کے ذمے دار ہیں یا وہ یہ سوال عوام سے کر رہے ہیں؟
اگر ان تقریروں کا مقصد محض تسلی و دلاسے اور 'اللہ کو یہی منظور تھا‘ والی خالی خولی مذمت ہے تو پھر جان لیجیے کہ آپ نے اس ملک کو کھائی کی جانب لے جاتے ہوئے مذہبی شدت پسندوں اور جنونی گروہوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔
ایسی صورت میں حکام ایک سو اٹھائیس افراد کو پکڑنے اور تین سو نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بجائے ایک لاکھ اٹھائیس ہزار مشتبہ افراد کو بھی پکڑ لیں، تب بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ یہ ایک سو، ایک ہزار یا ایک لاکھ کو پکڑنے کا سوال نہیں ہے، یہ تئیس کروڑ کی اس قوم میں پلنے والی اس شدت پسندی کو ختم کرنے کا سوال ہے، جس کی ہم نے بڑی محنت سے آبیاری کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اسلامو فوبیا کے نام پر اگر صرف دوسرے ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے ابتر سلوک پر آئے روز بات کرتے رہیں گے جبکہ اپنے ملک میں توہین مذہب اور غیرت کے نام پر مار دیے جانے والوں کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتے گے، تو یہ عمل ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہی بنے گا اور وہ مذہب کارڈ کو استعمال کرنے کی روایت کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔
مشتعل ہجوم کی طرف سے قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے توہین مذہب کے نام پر قتل کی وارداتیں اس ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ ہم اس چیلنج سے اس وقت تک نہیں نمٹ سکتے، جب تک ملکی قوانین اتنے کمزور ہوں گے، کہ جو مجرمان کو سزا سے بچ نکلنے کے راستے فراہم کرتے رہیں گے۔
اس کی بڑی مثال حالیہ دو کیسز ہیں۔ مشال خان اور قندیل بلوچ دونوں مقدمات میں ریاست نے فریق بننے کا فیصلہ کیا لیکن اس کے باوجود مجرمان بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔
توہین مذہب کے قانون میں کئی سخت سزاؤں والی شقیں ضیا الحق کے دور شامل کی گئی تھیں، جس نے لوگوں کے لیے قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور توہین کے الزام کا سہارا لے کر لوگوں کو مارنے میں مزید آسانی پیدا کر دی۔
جب بھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو حکام کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ اس قانون میں ترامیم کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے، ایسا قانون بنایا جائے گا کہ جو کوئی توہین مذہب کا غلط اور جھوٹا الزام لگائے گا، تو اسی کو سزا دی جائے گی، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
نصاب سے شدت پسند مواد کو ختم کرنے کی بات بھی کی گئی لیکن اس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔
الزام جھوٹا ہے یا سچا ؟ زیادہ تر کیسوں میں تو الزامات کی صداقت جاننے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے۔ اکثر واقعات میں تو مقدمہ عدالت تک پہنچے سے پہلے ہی ایسے افراد ہجوم کے وحشیانہ تشدد کو برداشت ہی نہیں کر سکتے، ایسا ہی پریانتھا کمار مشال خان یا ذہنی معذور مشاق کے ساتھ بھی ہوا۔
مشتاق تو ذہنی مریض تھا لیکن ہمارے سیاستدان، حکام، کرتا دھرتا اور اس مملکت کے مالک تو ذی شعور اور سیانے ہیں وہ اس طرح کے قانون کو چھیڑ کر اپنا ووٹ بنک کیوں خراب کریں گے۔
وہ جن دینی گروہوں کو اپنا حلیف جانتے ہیں ان کو حریف کیوں بنائیں گے یا اپنا اثاثہ خود اپنے ہاتھوں سے کیوں لٹائیں گے؟ بیس سالوں میں توہین مذہب کے ہاتھوں چند درجن لوگ مارے گئے تو کیا ہوا؟ اُن کے لیے پانچ برسوں کے لیے تئیس کروڑ نفوس پر حکومت کرنے کا خواب، ہجوم کی طرف سے مار دیے جانے والے ان چند انسانوں سے کوئی میل نہیں کھاتا۔
ہمارے ملک میں فوری انصاف کا حصول ناممکن نظر آتا ہے اور لوگ فوری انصاف کے تصور سے ہی مایوس ہو چکے ہیں لیکن موب لنچنگ کے کسی بھی ایسے واقعے میں ملوث افراد فوری انصاف کے حصول کے لیے ایسا نہیں کرتے کیونکہ ایسے واقعات صرف مذہب یا غیرت سے جڑے ہوئے معاملات پر ہی ہوتے ہیں۔
ایسے جرائم کرنے والے ایک خاص شدت پسند جنونیت کے زیر اثر اس طرح کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ جنون ان کی رگوں میں بچپن سے بڑے ہونے تک ایک زہر کے مانند داخل کیا جاتا ہے، جس میں ان کو یہ پڑھایا اور بتایا جاتا ہے کہ مذہب پر کوئی اختلاف رائے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
ایسا جوان جب یہ سنتا ہے کہ کسی نے اس کے مذہب کے خلاف بات کی ہے یا کوئی ایسا کام سر زد ہوا ہے، جو ان نظریات کے خلاف ہے جو اس کو اب تک پڑھائے گئے یا بتائے گئے، تو وہ غصے میں پک کر بھٹی بن جاتا ہے اور پھر اس کے سامنے ایک ذہنی معذور ہی کیوں نہ ہو وہ اس کو بے دردی سے قتل کرنے میں کوئی شرم یا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
ہمیں قوانین کی تبدیلی کے ساتھ ایسے مذہبی گروہوں کی بیخ کنی کرنا ہو گی، جن کے زیر اثر نوجوانوں میں ایسی سوچ تربیت پاتی ہے کیونکہ پریانتھا کمار کو مارنے والے افراد نے 'اللہ اکبر‘ کے علاوہ 'لبیک‘ کے نعرے لگاتے ہوئے قتل کیا، جس کی ویڈیوز وائرل ہوئیں تو لوگوں نے سوال اٹھایا کہ مذہبی جماعت تحریک لبیک کے نعرے لگا کر یہ قتل کیا گیا کیا تو اس جماعت سے باز پرس کی جائے لیکن حکومت و ریاست میں اتنی سکت کہاں بلکہ اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ جب تک ہم ان جرائم پر پردہ ڈالتے رہیں گے ہماری آنکھوں اور عقلوں پر پردہ پڑا رہے گا اور اس ملک کے لوگ اسی طرح بے دردی سے مارے جاتے رہیں گے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔