1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرتگال میں ’شکاریوں کا بادشاہ‘ ڈائنوسارس دریافت

افسر اعوان6 مارچ 2014

یورپی ملک پرتگال میں ڈائنوسارس کی ایک نئی قسم کی باقیات دریافت ہوئی ہیں۔ ماہرین کی طرف سے بدھ پانچ مارچ کو بتایا گیا کہ ٹِرانوسارس ریکس نسل کا یہ ڈائنوسارس 150 ملین برس قبل سطح زمین پر موجود تھا۔

https://p.dw.com/p/1BLNL
تصویر: Reuters/Sergey Krasovskiy

محققین کے مطابق ڈائنوسار کی یہ قسم یورپ میں دریافت ہونے والے شکاری ڈائنوسارز میں سے سب سے بڑی ہے۔ پرتگال کی NOVA یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین کرسٹوف ہینڈرکس اور اوکٹاویو ماٹیئُس کے مطابق یہ قسم دراصل ڈائنوسارس کے زمانے کی سب سے بڑی اقسام میں سے ایک ہے۔

امریکی تحقیقی جریدے PLOS ONE میں اس دریافت کے بارے میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق اس ڈائنوسار کو ٹورووسارس گُرنیی Torvosaurus gurneyi کا نام دیا گیا ہے جو ٹِرانوسارس ریکس یا ٹی ریکس کی طرح دو قدموں پر چلتا تھا اور گوشت خور تھا۔ اس کے بلیڈ کی شکل کے دانتوں کی لمبائی 10 سینٹی میٹر یا چار انچ تک تھی۔

ٹورووسارس گُرنیی، ٹرانوسارس ریکس کی طرح دو قدموں پر چلتا تھا
ٹورووسارس گُرنیی، ٹِرانوسارس ریکس کی طرح دو قدموں پر چلتا تھاتصویر: Fotolia/atm2003

ماٹیوس کے بقول، ’’یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ایک خوفناک شکاری تھا۔ یہ جہاں کہیں بھی جاتا تھا وہ جگہ پھر اس کی ہی ملکیت اور تصرف میں ہوتی تھی۔ ڈائنوسارز کے زمانے کے اختتامی حصے میں ٹورووسارس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ہوگا۔ یہ ٹی ریکس کے برابر ہوتا تھا تاہم یہ اس سے 80 ملین برس قبل موجود تھا۔‘‘

سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ٹورووسارس گُرنیی 10میٹر یعنی 33 فٹ تک لمبے اور چار سے پانچ ٹن تک وزن کے حامل ہوتے ہوں گے۔ اس جانور کے سر کی ہڈی قریب چار فٹ ( یا 115 سینٹی میٹر) لمبی ہوتی ہے جو ٹی ریکس کے مقابلے میں نسبتاﹰ چھوٹی ہے مگر یہ فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔

شمالی امریکا میں پائی جانے والی اقسام کے ڈائنوسارز کے اوپر والے جبڑے پر 11 یا اس سے زائد دانت ہوتے تھے
شمالی امریکا میں پائی جانے والی اقسام کے ڈائنوسارز کے اوپر والے جبڑے پر 11 یا اس سے زائد دانت ہوتے تھےتصویر: picture-alliance/ dpa

پرتگال میں اس ڈائنوسار کے ملنے والے فوصل دراصل شمالی امریکی ٹورووسارس ٹینیری Torvosaurus tanneri سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں سائنسدانوں کا یہی خیال تھا کہ یہ شمالی امریکی ڈائنوسار ہی کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ تاہم جب ان فوصل کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا تو محققین کو اندازہ ہوا کہ بحر اوقیانوس کی دو مختلف جانب یہ دونوں اقسام علیحدہ علیحدہ پروان چڑھی ہوں گی جن میں کئی ملین سالوں کا فرق بھی موجود ہے۔

ماٹیوس کے مطابق یہ جاننا تو مشکل ہے کہ یہ دونوں اقسام جب زندہ ہوں گی تو ایک دوسرے سے کس قدر مختلف دکھائی دیتی ہوں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے رنگوں اور رویے میں فرق ہو جس کے باعث ان دونوں کو با آسانی الگ الگ شناخت کیا جا سکتا ہو۔

شمالی امریکا میں پائی جانے والی اقسام کے ڈائنوسارز کے اوپر والے جبڑے پر 11 یا اس سے زائد دانت ہوتے تھے جبکہ پرتگال میں ملنے والے اس نئے ڈائنوسار کے اوپری جبڑے میں 11 سے کم دانت ہیں۔ محققین کے مطابق اس کے چہرے کی ہڈیوں کی شکل اور ڈھانچہ بھی مختلف ہے۔