پسماندہ پاکستانی علاقوں میں ماہواری سے آگہی بڑھتی ہوئی
16 ستمبر 2019اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں کی خواتین تک ماہانہ ماہواری یا 'پیریڈ‘ (حیض) سے متعلق بنیادی معلومات تک رسائی یا فراہمی کو دانستہ طور پر 'فحش‘ قرار دے کر روکا جاتا ہے۔ جوان ہوتی لڑکیوں کو اس بابت معلومات دینے کی حوصلہ شکنی یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ یہ 'پاکیزگی‘ کے منافی ہے اور معاشرتی اقدار میں ایسی گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کی سن 2018 میں مرتب کی جانے والی رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ اس بنیادی معاملے کے بارے میں بالغ لڑکیوں کو مطلع نہ کرنے کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اس کی معلومات نہ رکھنے والی لڑکی کی جذباتی حالت اور جسمانی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔
آغا خان رورل اسپورٹ پروگرام (AKRSP) سے وابستہ بشریٰ انصاری کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں اب بھی ماہواری ایک ایسا شجر ممنوعہ ہے کہ لڑکیاں اپنی ماہوری کے دوران استعمال ہونے والے کپڑے چھپانے کی اذیت میں مبتلا رہتی ہیں۔ انصاری کے مطابق ایسے آلودہ کپڑے زیر زمین دفن کرنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے حالانکہ زمین کی مٹی میں انہیں چھپانا حقیقت میں بیکٹریا کی افزائش کرنا ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے کئی علاقوں کی خواتین کو ماہواری کے بارے میں معلومات ہی حاصل نہیں ہے۔ اس علاقے کے ایک معالج کا کہنا ہے کہ انہیں ایک لڑکی نے بتایا کہ اُسے کینسر جیسا کوئی مرض لاحق ہو گیا ہے، حالانکہ اس لڑکی کو پہلی ماہواری آئی تھی۔ اسی طرح شمالی مغربی علاقے کے ایک گاؤں کی ایک نوجوان لڑکی کے مطابق اس نے جب اپنی والدہ کو ماہواری شروع ہونے کے بارے میں بتایا تو انہوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
سن 2017 میں یونیسیف کی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا تھا کہ نصف پاکستانی خواتین حیض یا ایام ماہواری کے شروع ہونے سے قبل اس کے بارے میں شعور ہی نہیں رکھتی ہیں۔ اب چترال کے دور دراز علاقوں میں بھی صورت حال تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے۔
روایتی اعتیار سے کچھ عرصہ قبل تک شہروں اور دیہات میں خواتین کو سینٹیری ٹاوَل کے بارے میں معلومات ہی حاصل نہیں تھیں۔ آج بھی پسماندہ علاقوں میں خواتین اس مقصد کے لیے کپڑے کے ٹکڑے استعمال کیا کرتی ہیں۔ خاندانوں میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھنے والے اِس موضوع کی شدت میں اب معلومات کی عمومی فراہمی اور تعلیم کے پھیلاؤ سے کمی پیدا ہونے لگی ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں بھی سینیٹری ٹاوَل کی دستیابی عام ہوتی جا رہی ہے۔
مختلف شہروں میں یہ صورت حال پوری طرح مختلف ہے، خاص طور پر تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم خاندانوں میں ماہواری یا ماہانہ پیریڈ کو عجیب نہیں سمجھا جاتا۔ دوکانوں سے سینیٹری پیڈز خریدنا بھی معیوب نہیں خیال کیا جاتا۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق پاکستان کو صنفی مساوات کے حوالے سے 149 ممالک کی فہرست میں 148 پوزیشن دی گئی تھی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں کم آمدنی والے حلقے کے لوگ یا خواتین عام دوکانوں سے سینیٹری پیڈز خریدنے میں پریشانی محسوس کرتی ہیں اور ان خاندانوں کے مرد ان کو خریدنے کے لیے رات کے وقت دوکان کا چکر لگاتے ہیں یا انتظار کرتے ہیں کب دوکان پر خریدارکم ہوں تو وہ یہ طلب کریں۔
ع ح، ع ب ⁄ اے ایف پی