1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور میں ایک اور سکھ کا قتل، سکھ برادری تشویش میں مبتلا

فریداللہ خان، پشاور
1 اکتوبر 2021

خیبر پختونخوا میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک معروف حکیم ستنام سنگھ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب داعش خراسان (آئی ایس کے پی) نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/419Gd
Pakistan | Sikh | Ermordung eines Arztes in Peschawar
تصویر: Fared Ullah Khan

اس واقعے نے خیبر پختونخوا کی سکھ برادری کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ سکھوں کی بڑی تعداد سابق قبائلی اضلاع سے نقل مکانی کر کے پشاور میں قیام پذیر ہے۔ قتل کے اس واقعے میں حکیم سردار ستنام سنگھ کو گزشتہ روز ان کے مطب میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔

داعش خراسان (آئی ایس کے پی) نامی تنظیم نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم پشاور پولیس کے مطابق انہیں 'نامعلوم افراد‘ نے قتل کیا ہے۔ پولیس کے تفتیشی ٹیم کا کہنا ہے، ''جائے واقعہ سے شواہد جمع کر لیے گئے ہیں اور جلد ہی اس قتل میں ملوث افراد کو پکڑ لیا جائے گا۔‘‘

خیبر پختونخوا میں ساڑھے پانچ سو سے زیادہ سکھ خاندان رہائش پذیر ہیں، جو بلاتفریق مسلمانوں کی خوشیوں اور غموں سمیت مذہبی تہواروں اور فلاحی کاموں میں شریک ہوتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران سکھوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ برسوں سے صوبے میں رہائش پذیر سکھوں نے اس وقت اپنے آبائی علاقے چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا، جب ان سے علاقے کے جنگجو گروپوں نے بھتہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

انہی حالات میں ستنام سنگھ بھی اپنے خاندان کے ہمراہ پشاور منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے سکھ برادری کے رہائشی علاقے محلہ جوگن شاہ میں رہائش اختیار کر رکھی تھی۔ سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ علاقہ چھوڑنے کے باوجود انہیں نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ نہیں رک سکا اور انہیں دھمکیاں بھی ملتی رہیں۔ 

Pakistan | Sikh | Ermordung eines Arztes in Peschawar
خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جا انصاری نے اس کیس کو پولیس کے لیے ایک چیلنج قرار دیا ہےتصویر: Fared Ullah Khan

اقلیتوں کی ایک تنظیم مائینارٹی رائٹس فورم پاکستان کے چیئرمین رادیش سنگھ ٹونی کو بھی انتخابی مہم چلانے کے دوران دھمکیاں ملنی شروع ہوئی تھیں، جس کے بعد انہیں پشاور چھوڑ کر پنجاب منتقل ہونا پڑا۔ حکیم ستنام سنگھ کے قتل کے واقعے پر رادیش سنگھ کا کہنا تھا،  ''حالیہ کچھ عرصے میں دس سے بارہ سکھوں کو قتل کیا گیا اور ابھی تک کسی کے قاتل کو سزا نہیں ملی۔ اس کیس میں بھی کچھ نہیں ہونا، انصاف ملنا مشکل لگتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ پولیس کیا کرتی ہے۔ ایک طرف حکومت اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا دعوی کر رہی ہے لیکن دوسری جانب دہشت گرد آسانی سے بے گناہ افراد کو قتل کر رہے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔‘‘

ادھر خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جا انصاری نے اس کیس کو پولیس کے لیے ایک چیلنج قرار دیا ہے۔ وہ مقتول کے رشتہ داروں کے ساتھ تعزیت کے لیے ان کے گھر گئے۔ اس موقع پر انسپکٹر جنرل پولیس کا کہنا تھا، ''پشاور پولیس قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے گی۔ پولیس اس بیہمانہ قتل میں ملوث افراد کو کہیں سے بھی ڈھونڈ نکالے گی، ہم غمزدہ خاندان کو انصاف فراہم کریں گے۔ ‘‘

ستنام سنگھ پشاور میں ہفتے کے چار دن اپنا کلینک چلاتے تھے۔ ان کے رشتے داروں نے بتایا کہ وہ اسی روز حسن ابدال سے پشاور آئے تھے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کے ذریعے آئی ایس  کے پی نے پشاور کے علاقے فقیر آباد میں سکھ حکیم ستنام سنگھ کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

ستنام سنگھ کے قتل نے خیبرپختونخوا میں رہائش پذیر سکھ برادری کو پھر سے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ بعض سکھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے سے دونوں ممالک میں رہائش پذیر سکھوں کی زندگیوں کو خدشات لاحق ہو گئے ہیں۔ سکھ برادری کو اب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے اس بیان پر بھی یقین نہیں، جس میں انہوں نے ستنام سنگھ کے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کا کہا ہے۔